"جنگِ ذات الرقاع"

  "مفتی عثمان صدیقی"

یقیناً! ذیل میں "جنگ ذات الرقاع" (جنگِ ذات الرقاع) پر 1500 الفاظ پر مشتمل ایک مفصل اردو مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔


جنگ ذات الرقاع – ایک تاریخی اور عبرت آموز غزوہ

اسلام کی تاریخ میں کئی غزوات ایسے ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مسلمانوں کو صبر، حوصلے، اتحاد اور قربانی کا عظیم درس دیا۔ انہی غزوات میں سے ایک اہم غزوہ "جنگِ ذات الرقاع" ہے، جسے عربی میں "غزوۃ ذات الرقاع" کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کا مقام، وقت، اسباب، واقعات اور نتائج نہ صرف اسلامی تاریخ کا اہم باب ہیں بلکہ آج بھی مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔


غزوہ کا پس منظر

غزوہ ذات الرقاع ہجرت کے چوتھے یا پانچویں سال (4ھ یا 5ھ) میں پیش آیا۔ اس وقت مدینہ منورہ کے اطراف میں بہت سی بدو قبائل آباد تھیں جو وقتاً فوقتاً مدینہ پر حملے کی سازشیں کیا کرتی تھیں۔ ان قبائل میں سب سے زیادہ خطرناک نجد کے علاقے کے قبائل تھے، جن میں بنو محارب، بنو ثعلبہ، بنو غطفان وغیرہ شامل تھے۔

یہ قبائل اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے اور مدینہ پر حملے کی نیت سے بار بار مجتمع ہو رہے تھے۔ جب ان کی سرگرمیوں کی خبر رسول اللہ ﷺ کو ملی، تو آپ ﷺ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر ترتیب دیا۔


نام کی وجہ تسمیہ

"ذات الرقاع" کے معنی ہیں "کپڑوں کے چیتھڑے"۔ اس جنگ کا نام "ذات الرقاع" اس لیے پڑا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس مناسب جوتے نہ تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے پاؤں کو کپڑے کے چیتھڑوں سے باندھ لیا تھا۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ یہ نام اس علاقے کے کسی مخصوص پہاڑی یا درخت کے نام پر رکھا گیا۔


رسول اللہ ﷺ کی قیادت

رسول اللہ ﷺ نے اس جنگ میں بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ آپ ﷺ نے تقریباً 400 صحابہ کرام پر مشتمل لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو کر نجد کی طرف پیش قدمی کی۔ اس لشکر میں مشہور صحابہ جیسے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور دیگر شامل تھے۔


سفر کی مشکلات

اس سفر میں سخت گرمی، پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور راستے کی دشواریوں نے صحابہ کرام کا صبر اور ایمان آزمایا۔ چونکہ یہ ایک طویل اور مشکل سفر تھا، اس لیے کئی صحابہ کے پاؤں زخمی ہو گئے۔ وہ چیتھڑے باندھ کر چلتے رہے، مگر رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل سے پیچھے نہ ہٹے۔


دشمن کی چالاکی اور فرار

جب مسلمان لشکر نے نجد کے ان علاقوں کا گھیرا کیا جہاں دشمن کے قبائل جمع ہو رہے تھے، تو کفار کو رسول اللہ ﷺ کی آمد کی اطلاع ہو گئی۔ ان قبائل نے مسلمانوں کا سامنا کرنے کے بجائے پہاڑوں میں پناہ لے لی اور لڑائی کے میدان سے فرار اختیار کر لیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں بڑی جنگی جھڑپ نہیں ہوئی۔ کفار نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلہ کیے بغیر بھاگ جانے کو ترجیح دی۔ اس عمل سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور دشمن کا حوصلہ پست ہو گیا۔


نمازِ خوف

غزوہ ذات الرقاع کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسی جنگ میں نمازِ خوف (نمازِ الخوف) کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ جب دشمن کا خطرہ شدید تھا اور کسی وقت بھی حملہ ہو سکتا تھا، تب رسول اللہ ﷺ نے نماز کا ایسا طریقہ سکھایا کہ آدھے مجاہد نماز پڑھتے اور آدھے پہرہ دیتے، پھر وہ جماعت کے بعد پہرہ دینے والے نماز پڑھتے اور باقی پہرہ دیتے۔

یہ نمازِ خوف اسلامی عبادات میں لچک اور حکمت کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑیں اور دشمن سے بھی چوکنا رہیں۔


غزوہ کے اثرات

اگرچہ اس غزوے میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی، مگر اس کے اثرات بہت دور رس تھے:

  1. دشمن کا حوصلہ ٹوٹا: جب قبائل نے دیکھا کہ مسلمان کم تعداد اور کم وسائل کے باوجود ان کے دل میں خوف ڈالنے کے لیے آئے ہیں، تو ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔

  2. مسلمانوں کا حوصلہ بلند ہوا: اس غزوے نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور ان میں نظم و ضبط اور اتحاد کو فروغ ملا۔

  3. نجد کے قبائل کا دباو کم ہوا: اس مہم کے بعد نجد کے قبائل طویل عرصے تک مسلمانوں سے الجھنے کی ہمت نہ کر سکے۔

  4. اسلام کا پیغام پھیلایا گیا: راستے میں اور آس پاس کے قبائل کو اسلام کی دعوت بھی دی گئی۔


اس غزوہ سے سبق

  1. قربانی اور استقامت: صحابہ کرام کی قربانی اور تکلیفیں آج کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

  2. نظم و ضبط: رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں ایک منظم اور باقاعدہ لشکر کی تیاری کا سبق ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں نظم پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

  3. نماز کی اہمیت: نمازِ خوف کے ذریعے اسلام نے یہ درس دیا کہ عبادت کسی حال میں ترک نہیں کی جا سکتی۔

  4. دشمن پر دباؤ کی حکمت: کبھی کبھار جنگ جیتنے کے لیے دشمن کو صرف دباؤ میں لانا بھی کافی ہوتا ہے۔


روایتوں کا اختلاف

مورخین نے غزوہ ذات الرقاع کی تاریخ اور تفصیلات میں کچھ اختلافات بھی نقل کیے ہیں۔ کچھ اسے 4ھ میں واقع بتاتے ہیں جبکہ کچھ 5ھ میں۔ اسی طرح کچھ مورخین کہتے ہیں کہ یہ جنگ بنو محارب اور بنو ثعلبہ کے خلاف تھی، جبکہ کچھ دیگر قبائل کا ذکر کرتے ہیں۔ بہرحال، ان اختلافات سے غزوے کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔


نتیجہ

غزوہ ذات الرقاع اگرچہ ایک مختصر جنگ تھی، مگر اس کی اہمیت کسی بڑی جنگ سے کم نہیں۔ اس میں مسلمانوں کی قربانی، استقامت، اتحاد، اور سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی ہمیں آج کے دور کے مسائل سے نجات کا سبق دیتی ہے۔ مسلمان جب تک ان اسباق کو یاد رکھیں گے، ان شاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔


Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas