وصال حضرت بلال حبشیؓ
وصال حضرت بلال حبشیؓ
از قلم: مفتی عثمان صدیقی
تمہید
حضرت بلال حبشیؓ، اسلام کے اولین مؤذن، عاشقِ رسولؐ، اور جرأت و استقامت کی عظیم مثال تھے۔ آپ کا اصل نام بلال بن رباح تھا۔ حبشہ کے ایک غلام گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر ایمان و تقویٰ نے آپ کو دنیا و آخرت میں معزز بنا دیا۔ آپ کا وصال اسلامی تاریخ کا ایک رُقّت انگیز باب ہے، جسے پڑھ کر دل نم ہو جاتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور قبولِ اسلام
حضرت بلالؓ حبشہ سے مکہ لائے گئے، جہاں امیہ بن خلف جیسے ظالم نے انہیں غلام بنایا۔ اسلام قبول کیا تو ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی۔ آپؓ کو دھوپ میں گرم ریت پر لٹایا جاتا، سینے پر پتھر رکھ دیا جاتا، لیکن زبان پر صرف "احد، احد" جاری رہتا۔
جسم پتھروں سے زخمی ہوا، دل نہ بدلا
لبوں پہ تھا صرف احد، یہ بلالؓ کی صدا تھی
آزادی اور مؤذنی کی فضیلت
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کو خرید کر آزاد کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو مؤذن مقرر فرمایا۔ اذان میں "اشہد ان محمدًا رسول اللہ" کی صدا ایسی تھی کہ مدینہ کی فضائیں گونج اٹھتیں۔
بلالؓ کی اذان میں کیف و سوز ایسا
فرشتے بھی سنتے، زمیں کہتی تھا سبحان اللہ
حبِ رسولؐ کا انداز
حضرت بلالؓ رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص تھے۔ آپؓ ہر وقت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ غزوہ بدر، احد، خندق سمیت کئی معرکوں میں شریک ہوئے۔
وصالِ نبویؐ کے بعد حالت
جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا، تو حضرت بلالؓ کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ آپؓ کا دل مدینہ میں نہیں لگا۔ اذان دینا چھوڑ دی، کیونکہ جب "اشہد ان محمدًا رسول اللہ" کہتے، تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔ مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے۔
نہ پوچھو حال بلالؓ کا بعدِ وصالِ نبیؐ
اذان چھوٹ گئی، سکون چھن گیا، دل غم میں ڈوب گیا
وصال کے وقت کی کیفیت
حضرت بلالؓ کا وصال شام کے شہر "دمشق" میں 20 ہجری کو ہوا، عمر تقریباً 60 سال تھی۔ آپؓ کی بیوی آپؓ کے قریب آ کر رونے لگی اور کہنے لگی: "ہائے افسوس!" (وا حُزنا)
حضرت بلالؓ نے جواب دیا:
وا فرحتاہ! غدًا ألقى الأحبّة محمّدًا و حزبہ
"کل محبوبوں سے ملاقات ہو گی، محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے۔"
یہ الفاظ سن کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ موت کی سختی میں بھی لبوں پر رسول ﷺ کا ذکر جاری تھا۔
حضرت عمرؓ کی خواہش
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ جب شام تشریف لائے تو حضرت بلالؓ کو مدینہ آنے کی دعوت دی، مگر انہوں نے انکار کیا کہ وہ اب دنیا میں وہی سکون چاہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کے وصال سے میسر ہو۔
آخری اذان
روایت ہے کہ حضرت بلالؓ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"اے بلال! کیا تم ہمیں ملنے نہیں آؤ گے؟"
یہ خواب دیکھتے ہی حضرت بلالؓ مدینہ پہنچے۔ صحابہ کرامؓ نے جب سنا کہ حضرت بلالؓ آئے ہیں، تو فرحت کی لہر دوڑ گئی۔
حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نے فرمایا: "چچا! ایک بار اذان دیں"
حضرت بلالؓ منبر پر چڑھے اور اذان دی۔ جب "اشہد ان محمدًا رسول اللہ" پر پہنچے تو مدینہ کی گلیاں اشکبار ہو گئیں، لوگ مسجد نبوی میں جمع ہو گئے اور کہنے لگے:
"رسول اللہ ﷺ زندہ ہو گئے!"
آپؓ کا مزار
حضرت بلالؓ کا مزار دمشق (شام) میں واقع ہے، جہاں آج بھی عاشقانِ رسول ﷺ حاضر ہوتے ہیں۔ مزار پر کتبہ ہے:
"ہٰذا قبر سیّدنا بلال بن رباح مؤذن رسول اللہ ﷺ"
شاعری میں عقیدت
اردو شاعری میں حضرت بلالؓ کی عظمت پر کئی اشعار ملتے ہیں، چند منتخب اشعار نذرِ قارئین:
کبھی احد کبھی احد کی گونج تھی صحرا میں
بلالؓ نے لاج رکھی تھی دینِ مصطفیٰؐ میں
بلالؓ کی اذان تھی، جنت کی صدا لگتی
مؤذنِ رسولؐ ہو، پھر بات ہی جدا لگتی
نہ تھا تیرے پاس مال و زر، نہ جاہ و حشم
مگر خدا نے دے دیا، بلالؓ تجھ کو کرم
فرشتے سنتے اذان تیری، مدینے کی فضا کہتی
یہ مؤذن ہے وہی، جس کو محمدؐ کی رضا ملی
سبق و پیغام
حضرت بلالؓ کی زندگی ہمیں کئی سبق دیتی ہے:
1. عشقِ رسول ﷺ:
حقیقی کامیابی رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ہے، جیسا کہ بلالؓ نے دکھایا۔
2. استقامت:
ظلم سہہ کر بھی ایمان سے نہ ہٹنا، بلالؓ کی سنت ہے۔
3. اخلاص:
اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہر چیز قربان کر دینا۔
اختتامیہ
حضرت بلال حبشیؓ کا وصال یقیناً ایک روحانی باب ہے، جو آج بھی عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ کے دلوں کو گرما دیتا ہے۔ آپؓ کی زندگی قربانی، وفاداری اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا نادر نمون
Comments