واقعۂ کربلا کے اسباب
سیاق و سباق، سیاسی و مذہبی وجوہات، اور اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔
واقعۂ کربلا کے اسباب – ایک تفصیلی جائزہ
تمہید
واقعۂ کربلا اسلام کی تاریخ کا ایک ایسا دردناک باب ہے جس نے امتِ مسلمہ کو نہ صرف غم و اندوہ کا پیغام دیا بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک ابدی لکیر کھینچ دی۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے میدانِ کربلا میں عظیم قربانی پیش کی۔ یہ قربانی فقط شخصی یا خاندانی بنیاد پر نہ تھی بلکہ ایک ایسے اصول کی خاطر تھی جو اسلام کی اصل روح کا مظہر تھا۔ اس واقعے کے پیچھے کئی سیاسی، سماجی، دینی اور اخلاقی اسباب تھے جنہیں سمجھے بغیر ہم کربلا کے حقیقی پیغام تک نہیں پہنچ سکتے۔
یزید کی خلافت اور اس کی ناپسندیدگی
حضرت امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید کو خلافت سونپی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب خلافت موروثی شکل میں منتقل ہوئی۔ اسلامی خلافت کا اصول ہمیشہ مشاورت، اہلیت اور تقویٰ پر مبنی رہا، لیکن یزید کی خلافت ان تمام اصولوں کی نفی تھی۔
یزید کی شخصیت، سیرت اور کردار مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ وہ فسق و فجور، شراب نوشی، گانے بجانے، ظلم و ستم اور دیگر منکرات میں مشہور تھا۔ امام حسینؓ جیسے باکردار، پرہیزگار، اور رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ فرد کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کی بیعت کریں جو کھلے عام دین کے اصولوں کو پامال کرتا ہو۔
اسلامی قیادت کی اہلیت کا مسئلہ
اسلام میں قیادت صرف نسب پر نہیں بلکہ تقویٰ، علم، عدل اور اخلاص پر دی جاتی ہے۔ یزید نہ علم کا حامل تھا، نہ تقویٰ کا نمونہ۔ اس کے برعکس امام حسینؓ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے نواسے تھے بلکہ علم، عدل، حلم، شجاعت اور دیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔
یزید کی خلافت درحقیقت دین اسلام کو دنیاوی بادشاہت میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ امام حسینؓ اس تبدیلی کو برداشت نہ کر سکے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید جیسے شخص کو خلافت کی سند دے دی گئی تو یہ عمل قیامت تک کے لیے خلافت کے تصور کو مسخ کر دے گا۔
کوفہ والوں کی دعوت
یزید کی خلافت کے بعد کوفہ کے لوگوں نے امام حسینؓ کو خطوط لکھے اور ان سے درخواست کی کہ وہ کوفہ آئیں اور وہاں کے لوگوں کی قیادت سنبھالیں۔ ان خطوط کی تعداد ہزاروں میں تھی جن میں کوفہ کے بڑے بڑے قبائل کے دستخط شامل تھے۔ کوفہ والوں کی اس دعوت کو امام حسینؓ نے اسلام کے حق اور یزید کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا ایک موقع سمجھا۔
اگرچہ امام حسینؓ جانتے تھے کہ کوفہ والوں کی وفاداری مشکوک ہے، لیکن دین کی سربلندی کے لیے انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنا سفر شروع کیا۔ انہوں نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر پہلے ہی کوفہ بھیجا، مگر جلد ہی مسلمؓ کو شہید کر دیا گیا اور کوفہ والوں نے عہد شکنی کی۔
ظلم کے خلاف قیام کا فریضہ
امام حسینؓ نے قیام کربلا کو ایک سیاسی بغاوت کے طور پر نہیں بلکہ ایک دینی فریضے کے طور پر اپنایا۔ ان کا مقصد صرف خلافت چھیننا نہ تھا بلکہ دین کی اصل روح کو زندہ کرنا تھا۔ انہوں نے فرمایا:
"میں نے یزید کی بیعت اس لیے نہیں کی کیونکہ میں ظلم، گناہ، اور فساد کو نہیں مان سکتا۔ میرا مقصد امتِ محمدیہ ﷺ کی اصلاح ہے۔"
ان کا قیام اس آیتِ مبارکہ کی عملی تفسیر تھا:
"کونو قوامین بالقسط" (عدل کے قیام کے لیے کھڑے ہو جاؤ)۔
حکمرانوں کی جابرانہ روش
یزید نے اپنی حکومت کے آغاز ہی میں مدینہ کے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ بیعت کریں۔ حضرت حسینؓ کو دھمکیاں دی گئیں، ان کے گھر کی نگرانی کی گئی۔ ان کی مدینہ سے روانگی بھی انہی جابرانہ اقدامات کا ردعمل تھی۔
یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کوفہ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے تھا۔ اس نے امام حسینؓ کے قاصد حضرت مسلمؓ کو شہید کیا، اور کوفہ کے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر کے امام حسینؓ کی حمایت سے روک دیا۔ ان جابرانہ اقدامات نے امام حسینؓ کو حق کے لیے تلوار اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
نانا کے دین کی حفاظت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:
"حسین منی و أنا من الحسین"
یعنی "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"۔ امام حسینؓ اس نسبت کو نبھانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے خاموشی اختیار کی تو دینِ محمدی ﷺ کے اصول و اقدار ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے۔
کربلا میں امام حسینؓ نے اپنے اہلِ بیت سمیت جان قربان کر کے دین اسلام کی حفاظت کی۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ:
"ظالم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا بھی ظلم ہے۔"
نتائج و اثرات
واقعۂ کربلا محض ایک تاریخی سانحہ نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ایک تحریک، ایک پیغام اور ایک معیار ہے۔ اس نے امتِ مسلمہ کو بتایا کہ حق کی راہ میں جان دینا افضل ہے بہ نسبت ظالم کی اطاعت کے۔
کربلا نے مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ:
-
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا لازم ہے۔
-
قیادت کے لیے کردار، تقویٰ اور علم ضروری ہے، نہ کہ نسب یا طاقت۔
-
شہادت حق و صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اختتامیہ
واقعۂ کربلا کے اسباب کو سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اس قربانی کی اصل روح کو سمجھ سکے۔ امام حسینؓ نے ہمیں صرف ماتم اور آنسوؤں کا درس نہیں دیا، بلکہ انہوں نے ہمیں حق کے لیے کھڑا ہونے، ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے، اور دین کے اصولوں پر عمل کرنے کا سبق دیا۔
ان کے قیام کا پیغام ہر دور کے لیے ہے۔ آج بھی اگر ہم معاشرتی، اخلاقی، سیاسی اور دینی انحطاط کا شکار ہیں تو ہمیں اسی جذبۂ حسینیت کی ضرورت ہے جو باطل کے ایوانوں کو ہلا دے۔
Comments