قافلۂ حسینی پر پانی کی پابندی



قافلۂ حسینی پر پانی کی پابندی

ظلم کی انتہا، صبر کا پہاڑ

تمہید

اسلامی تاریخ کے اوراق میں کربلا ایک ایسا باب ہے جو مظلومیت، حقانیت، صبر و استقلال اور باطل کے خلاف قیام کی روشن مثال ہے۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے صرف دین کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بلکہ ہر ممکن ظلم کو سہہ کر بھی اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہے۔ ان مظالم میں سب سے اذیت ناک ظلم پانی کی پابندی تھی جو بنی ہاشم کے بچوں، بوڑھوں، جوانوں، حتیٰ کہ امام کے شیر خوار بیٹے تک پر کی گئی۔


پانی کی اہمیت اور اسلامی تعلیمات

اسلام میں پانی کو زندگی کی بنیاد کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ
ترجمہ: اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔
(سورۃ الانبیاء، آیت 30)

ایک اور مقام پر پانی پلانے کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا:

فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ۔۔۔ وَيَقُولُونَ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ۔۔۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ
(سورۃ المدثر، آیات 40-44)

یعنی جنت والے پوچھیں گے کہ تم جہنم میں کیوں آئے؟ وہ کہیں گے ہم نماز نہ پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہ کھلاتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی ضرورتوں کی فراہمی، خاص کر پانی دینا ایک عظیم نیکی ہے۔ مگر کربلا میں اس نیکی کی جگہ ایک ظلم عظیم نے لے لی۔


یزیدی لشکر کی طرف سے پانی کی پابندی

امام حسینؑ 2 محرم 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں پہنچے۔ یزیدی فوج نے ان پر مسلسل دباؤ بڑھایا اور بالآخر 7 محرم کو عمر بن سعد کے حکم پر دریائے فرات سے پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔

تاریخ طبری میں ہے:

"ثم كتب عمر بن سعد إلى عبيد الله بن زياد، فأجابه بأن يمنعهم الماء."
(تاریخ طبری، جلد 5، ص 405)

یعنی عمر بن سعد نے ابن زیاد کو لکھا، اور اس نے جواباً حکم دیا کہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو۔

یہ ظلم صرف امام حسینؑ پر نہیں، بلکہ ان معصوم بچوں پر بھی تھا جو پیاس کی شدت سے بلک رہے تھے۔ یہاں ایک دل کو چھو لینے والا شعر عرض ہے:

پیاسا تھا جو نبی کا نواسہ، کہاں گئی غیرتِ مسلمانی؟
فرات بہتا رہا قریب ہی، مگر لبوں پہ تھی فقط حیرانی


حضرت عباسؑ کا پانی لینے جانا

حضرت عباس علمدارؑ کی جرات اور وفاداری کی انتہا تھی۔ جب خیموں میں بچوں کی پیاس کی شدت بڑھی، تو امام حسینؑ نے اپنے بھائی کو پانی لانے کے لیے روانہ کیا۔ حضرت عباسؑ نے دریا تک پہنچ کر مشک بھری، مگر خود پانی نہ پیا۔

سقا نے خود پیاسا جان دے دی، مگر بچوں کو پانی پلانے چلا تھا
مشک تھی ہاتھ میں، علم تھا شان میں، مگر لب تھے خشک ایماں میں

علامہ ابن نما حلی روایت کرتے ہیں:

"عباسؑ نے پانی بھرا، مگر جب پینے کا ارادہ کیا تو خود کو ملامت کی اور کہا: اے نفس! حسینؑ پیاسے ہیں، تم پانی پیو؟ ہرگز نہیں!"
(مثير الأحزان، ص 72)


حضرت علی اصغرؑ کی پیاس اور ظالمانہ تیر

کربلا کا سب سے دردناک منظر حضرت علی اصغرؑ کا ہے۔ جب امام حسینؑ نے دیکھا کہ کوئی بھی خیمہ ایسا نہیں جس میں بچہ پانی مانگتا نہ ہو، تو اپنے شیر خوار بیٹے کو اٹھایا اور لشکرِ یزید سے کہا:

"اگر مجھ پر رحم نہیں، تو اس بچے پر رحم کرو، اسے پانی دو!"

جواب میں حرملہ نے تیر چلایا جو حضرت علی اصغرؑ کے گلے پر لگا اور وہ امام کی گود میں شہید ہو گئے۔

گود میں بچہ تھا، تیر آیا، حلق میں پیوست ہو گیا
کربلا کی مٹی بھی کانپ اٹھی، آسمان بھی اشکبار ہو گیا


امام حسینؑ کی پیاس اور شہادت

امام حسینؑ نے آخری وقت تک پانی نہیں پیا۔ جب بھی پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا، دشمن نے تیر برسا دیے۔ امام کی زبان خشک ہو چکی تھی، مگر زبان پر صرف "یا رب" کا ورد تھا۔

زبان پر پیاس، لبوں پر ذکر، دل میں یقین، آنکھوں میں نور تھا
کربلا کی ریت پر سجدہ کر کے، حسینؑ نے اسلام کا سورج بھرپور کیا

علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

"امامؑ نے آخری وقت اللہ سے عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ پر قانع ہوں، تجھ سے راضی ہوں، مجھے تو اپنی رضا چاہیے۔"
(بحار الانوار، جلد 45، ص 51)


بچوں کی حالت اور صبر

بی بی سکینہؑ کی پیاس اور حالت بھی کربلا کی مظلومیت کا ایک عظیم پہلو ہے۔ وہ بار بار امام حسینؑ سے پانی مانگتی تھیں:

بابا! پانی کب ملے گا؟ میرا حلق سوکھ رہا ہے
لب خشک ہیں، کلیجہ جل رہا ہے، سکینہؑ تڑپ رہی ہے

بی بی زینبؑ اور اہلِ حرم نے صبر کا وہ پہاڑ بن کر دکھایا جو تاریخِ انسانیت میں بے مثال ہے۔


فلسفۂ پانی کی پابندی

پانی کی پابندی صرف جسمانی اذیت نہ تھی بلکہ اس کا مقصد نفسیاتی دباؤ ڈالنا تھا تاکہ امام حسینؑ کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں۔ مگر حسینؑ نے پیغام دیا:

"مثلی لا یبایع لمثلہ"
"مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔"

پانی کی بندش نے امام کے موقف کو اور زیادہ روشن کر دیا، کہ وہ صرف سیاسی رہنما نہیں، بلکہ الٰہی مشن کے علمبردار تھے۔


آج کا پیغام

کربلا کا سبق ہمیں یہ دیتا ہے کہ:

  • مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا حق ہے

  • دنیاوی طاقت اور جبر کے سامنے سر نہ جھکانا ہی حسینیت ہے

  • اور کسی بھی حالت میں بنیادی انسانی حقوق، جیسے پانی، غذا، عزت — ان پر ظلم دین کے اصولوں کے خلاف ہے

آج اگر ہم کسی پر پانی بند کریں، یا کسی کو حقوق سے محروم کریں تو یاد رکھیں: ہم یزیدی عمل دہرا رہے ہوتے ہیں۔


اختتامیہ

کربلا میں قافلہ حسینی پر پانی کی بندش محض ایک جسمانی ظلم نہ تھا، بلکہ ایک عقیدتی جنگ کا ہتھیار تھی۔ امام حسینؑ اور ان کے جانثاروں نے پیاسا رہ کر ہمیں زندگی بھر کے لیے وفا، حق، صبر، استقلال، اور دین پر مر مٹنے کا درس دیا۔

کیا بتاؤں کیسے جیا حسینؑ نے پیاس میں؟
دریا بہہ رہا تھا پاس میں، اور پیاس تھی احساس میں
ظالم نے بند کیا پانی، حسینؑ نے کھول دی دین کی راہیں


از قلمِ;                        مفتی عثمان صدیقی

Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas