"کربلا کی طرف روانگی"
یقیناً، یہاں "کربلا کی طرف روانگی" کے موضوع پر تقریباً 1500 الفاظ پر مشتمل ایک جامع اور تحقیقی مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کربلا کی جانب روانگی کے اسباب، واقعات اور اہم نکات کا احاطہ کرتا ہے:
کربلا کی طرف روانگی: ایک تاریخی و فکری جائزہ
تحریر: مفتی عثمان صدیقی
اسلامی تاریخ کا سب سے دردناک اور عبرت انگیز واقعہ ’’واقعہ کربلا‘‘ ہے، جو صرف ایک معرکہ یا جنگ نہیں بلکہ دین کی بقاء، حق و باطل کے درمیان فرق، اور قربانی کی ایک ایسی مثال ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ اس واقعہ کی ابتداء امام عالی مقام حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا کی جانب روانگی سے ہوتی ہے۔
پس منظر:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے فرزند، نبی کریم ﷺ کے نواسے اور جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ آپ کا مقام امت مسلمہ میں انتہائی بلند ہے۔ حضرت حسینؓ نے خلافت کے اس دور میں آنکھ کھولی جو خلافت راشدہ کہلاتا ہے، جس کی بنیاد عدل، مساوات، شریعتِ محمدی ﷺ اور عوامی مشورے پر تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خلافت کی شکل ملوکیت میں تبدیل ہونے لگی، خاص طور پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد جب یزید کو خلافت دی گئی۔
یزید کی خلافت اور امام حسینؓ کا انکار:
یزید کی خلافت کا اعلان 60 ہجری میں ہوا۔ یہ اعلان اس انداز میں کیا گیا کہ امت کو نہ مشورہ دیا گیا اور نہ ہی خلافت کی اصل روح کا لحاظ رکھا گیا۔ یزید کی شخصیت، اس کے کردار، اعمال اور دینی معاملات سے غفلت کو مدنظر رکھتے ہوئے، بہت سے صحابہ کرامؓ اور تابعین نے اس کی خلافت کو تسلیم نہ کیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت سے انکار کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یزید کی قیادت اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ نے امام حسینؓ کو یزید کے حق میں بیعت پر مجبور کیا، لیکن آپؓ نے انکار کر دیا۔ حالات کے تناؤ کو محسوس کرتے ہوئے، امام حسینؓ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ وہاں زیادہ آزادی سے اپنا موقف بیان کر سکیں اور حالات کا جائزہ لے سکیں۔
مکہ مکرمہ میں قیام:
مکہ معظمہ میں امام حسینؓ کو اہلِ کوفہ کی طرف سے بیعت کے خطوط موصول ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں امام حسینؓ سے درخواست کی گئی کہ وہ کوفہ آئیں اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں کیونکہ وہاں کے عوام یزید کے خلاف تھے اور امام کو اپنا قائد تسلیم کرتے تھے۔ امام حسینؓ نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔
ابتداء میں کوفہ کے لوگ مسلم بن عقیل کی بیعت پر آمادہ ہو گئے اور انہوں نے امام حسینؓ کو خط لکھ کر جلدی آنے کی تاکید کی۔ لیکن جلد ہی حالات بدل گئے، اور عبیداللہ بن زیاد کے ظلم و ستم سے مسلم بن عقیل شہید کر دیے گئے۔ امام حسینؓ کو اس کی خبر بعد میں ملی، لیکن اس وقت تک وہ کربلا کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔
کربلا کی طرف روانگی:
امام حسینؓ نے 8 ذوالحجہ، 60 ہجری کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف سفر شروع کیا۔ اس دن حجاج کرام مناسکِ حج ادا کر رہے تھے، لیکن امام حسینؓ نے حج کو عمرہ میں تبدیل کر کے مکہ کو خفیہ طور پر چھوڑ دیا تاکہ یزیدی جاسوسوں سے بچ سکیں اور کربلا کے عظیم مقصد کی تکمیل کی طرف روانہ ہو سکیں۔
اس سفر میں امام حسینؓ کے ساتھ ان کے اہلِ بیت، اصحاب، خواتین اور بچے شامل تھے۔ آپ کا قافلہ نہایت سکون اور صبر کے ساتھ منزل بہ منزل سفر کرتا رہا۔ راستے میں مختلف قبائل کے لوگ امام حسینؓ سے ملے، کچھ نے آپ کو آگے بڑھنے سے روکا اور کچھ نے نصیحت کی کہ آپ واپس چلے جائیں کیونکہ کوفہ کے حالات بدل چکے ہیں۔
لیکن امام حسینؓ کا ارادہ محض دنیاوی حکومت یا اقتدار کے لیے نہیں تھا۔ ان کا مشن اسلام کی اصل روح کو زندہ رکھنا تھا، اور وہ جانتے تھے کہ اگر وہ خاموش رہ گئے تو دین کے نام پر فتنہ اور بدعت کا دروازہ کھل جائے گا۔
حر بن یزید ریاحی کا سامنا:
جب امام حسینؓ کا قافلہ کربلا کے قریب پہنچا تو یزید کی طرف سے بھیجی گئی ایک چھوٹی فوجی ٹولی، جس کی قیادت حر بن یزید کر رہے تھے، آپ کے قافلے کے سامنے آ گئی۔ حر نے امام کو کوفہ لے جانے کا حکم دیا، لیکن امام حسینؓ نے کوفہ جانے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں ان کی جان کو خطرہ نہ ہو۔
کئی دنوں کی کشمکش اور گفتگو کے بعد امام حسینؓ کا قافلہ کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہو گیا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں بعد میں وہ عظیم قربانی پیش کی گئی جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
امام حسینؓ کا موقف:
کربلا کی طرف امام حسینؓ کی روانگی کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہیں تھا۔ آپؓ نے خود فرمایا:
’’میں نے خروج اس لیے نہیں کیا کہ فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں، بلکہ میں اپنی نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کروں اور اپنے نانا اور والد علیؓ کے طریقے پر چلوں۔‘‘
یہ الفاظ امام حسینؓ کے خلوص نیت اور مقصد کی پاکیزگی کو واضح کرتے ہیں۔ کربلا کی طرف سفر کا ہر قدم دین کی سربلندی اور باطل کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے۔
نتیجہ:
کربلا کی طرف روانگی ایک معمولی ہجرت نہ تھی، بلکہ یہ ایک عظیم تحریک کا آغاز تھا جو قیامت تک حریت، قربانی، اور ایمان کی مثال رہے گی۔ امام حسینؓ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ اگر وقت کا حکمران دین کے اصولوں کے خلاف ہو تو اس کے سامنے کلمۂ حق کہنا اور اس کے خلاف کھڑے ہونا ہر مسلمان کا فریضہ ہے، چاہے اس کے بدلے میں جان دینی پڑے۔
امام حسینؓ کی کربلا کی طرف روانگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین کے تحفظ کے لیے قربانی دی جاتی ہے، مفاد حاصل نہیں کیا جاتا۔ آج بھی اگر امت مسلمہ امام حسینؓ کے راستے کو اپنائے، تو دنیا میں امن، عدل، اور حق کا بول بالا ہو سکتا ہے۔
Comments