حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کی شہادت — ایک درخشندہ باب

از قلم: مفتی عثمان صدیقی


حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کی شہادت — ایک درخشندہ باب

تعارف

اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار نفوسِ قدسیہ گزرے ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کی سربلندی، اہل بیتِ اطہارؑ کی محبت اور عدل و انصاف کی حمایت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان ہی عاشقانِ ولایت میں ایک عظیم المرتبت ہستی حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کی ہے، جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ کے صفحات پر وفا و ایثار کی ایسی داستان رقم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔


نسب و تعارف

حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کا اصل نام "میثم" تھا، اور آپ کا لقب "تمّار" اس لیے مشہور ہوا کیونکہ آپ کھجور فروخت کیا کرتے تھے۔ آپ عرب کے ایک غلام خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اور ابتدائی زندگی میں غلام تھے، جنہیں بعد میں امیرالمؤمنین حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام نے خرید کر آزاد فرمایا۔ آزاد ہونے کے بعد بھی آپ نے نہ صرف جسمانی غلامی سے نجات پائی بلکہ روحانی طور پر علیؑ کے عشق میں فنا ہو گئے۔


حضرت علی علیہ السلام سے قربت

حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کو امام علی علیہ السلام کے خاص صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ نہ صرف اُن کے خدمت گزار تھے بلکہ علومِ آلِ محمدؐ کے راز دار بھی تھے۔ امام علیؑ نے آپ کو علمِ تاویل، تفسیر اور حقائقِ قرآنیہ کی تعلیم دی۔ حضرت علیؑ فرمایا کرتے تھے:

"میثم ہمارے علمِ باطن کے امین ہیں، یہ علمِ تأویل رکھتے ہیں۔"

آپ وہ خوش نصیب تھے جنہیں امام نے شہادت کی جگہ، وقت اور کیفیت تک سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔


علم و معرفت میں مقام

حضرت میثم تمار علمِ تاویل، تفسیر اور ولایت میں اس قدر بلند مقام رکھتے تھے کہ آپ کی پیش گوئیاں بعینہٖ سچ ثابت ہوتیں۔ آپ کی مجالس میں لوگ بیٹھ کر اہل بیتؑ کی فضیلتیں اور آنے والے فتنوں کی خبریں سنا کرتے تھے۔ کوفہ میں آپ کے علمی حلقے مشہور تھے۔ آپ نے ولایتِ علیؑ کی اشاعت میں کبھی مداہنت نہ کی۔


عشقِ ولایت

حضرت میثم کی شخصیت کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جا سکتا ہے: "عاشقِ علیؑ"۔ آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ حضرت علیؑ کی محبت، اطاعت اور دفاع میں گزارا۔ جب حضرت علیؑ نے شہادت پائی تو حضرت میثم تڑپ اٹھے اور فرمایا:

"میرے مولا گئے، اب زندگی کا کوئی لطف نہیں!"

یہی عشق اُنہیں حضرت حسنؑ اور پھر حضرت امام حسینؑ کے دربار تک لے گیا۔


حضرت ابنِ زیاد اور کوفہ کی سیاست

جب یزید لعین کی حکومت قائم ہوئی اور ابنِ زیاد کوفہ کا گورنر بنا، تو اہلِ بیتؑ کے چاہنے والوں پر زمین تنگ کر دی گئی۔ حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کا شمار اُن ہستیوں میں ہوتا تھا جنہوں نے یزیدی ظلم و جبر کو علانیہ رد کیا۔ ابنِ زیاد نے جب سنا کہ میثم کھل کر علیؑ کی فضیلتیں بیان کرتے ہیں تو آپ کو گرفتار کروایا۔


قید و بند کی آزمائش

حضرت میثم کو قید میں ڈال دیا گیا۔ ابنِ زیاد نے کہا:

"اگر تم علیؑ کی محبت سے دستبردار ہو جاؤ تو تمہیں چھوڑ دوں گا۔"

حضرت میثم نے جواب دیا:

"علیؑ کی محبت میری رگ رگ میں ہے، یہ خون سے نکل سکتی ہے، مگر دل سے نہیں!"

ابنِ زیاد نے آپ کو درخت پر لٹکانے اور زبان کاٹنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؑ نے برسوں پہلے پیش گوئی کی تھی کہ:

"اے میثم! تمہیں ایک دن کھجور کے درخت پر لٹکایا جائے گا اور تمہاری زبان کاٹی جائے گی کیونکہ تم ہماری فضیلت بیان کرو گے۔"


شہادت کی گھڑیاں

حضرت میثم تمار کو کوفہ کے دروازے کے قریب ایک درخت سے باندھ دیا گیا۔ آپ مسلسل ولایتِ علیؑ کی صدائیں بلند کرتے رہے۔ لوگ آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور آپ کی باتیں سنتے۔ دشمنوں نے زبان کاٹ دی، تاکہ یہ آوازِ حق بند ہو جائے، مگر حق بند نہیں ہوتا!

آپ نے بے زبان ہو کر بھی آنکھوں کے اشاروں سے اہل بیتؑ کی سچائی بیان کی۔ بالآخر ۲۲ ذی الحجہ کو آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔


ایک عظیم قربانی

حضرت میثم کی شہادت، صرف ایک شخص کی جان دینے کی کہانی نہیں، بلکہ یہ قربانی ظلم کے مقابلے میں حق کا علم بلند کرنے کی علامت ہے۔ آپ کی زبان کاٹی گئی تاکہ ولایتِ علیؑ کی صدا دبائی جا سکے، لیکن آپ کا نام رہتی دنیا تک علیؑ کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔


اشعارِ خراجِ عقیدت

کوفے کے در و دیوار نے سنا اک دن
میثم کی زباں بولی، علیؑ کا سخن
جب کاٹی گئی زبان، چپ تو نہ ہوئے
اشکوں میں بھی چھپا تھا علیؑ کا وطن


خلاصہ اور سبق

حضرت میثم تمار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں سکھاتی ہے کہ:

  1. حق کے راستے پر چلنا آسان نہیں، مگر آخری فتح حق کی ہوتی ہے۔

  2. ولایتِ علیؑ سے محبت ایمان کی علامت ہے۔

  3. باطل کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا ظلم کا ساتھ دینا ہے۔


ماخذ و حوالے

  • "نہج البلاغہ" – خطباتِ علیؑ

  • "عیون اخبار الرضا" – شیخ صدوق

  • "الامالی" – شیخ طوسی

  • "بحار الانوار" – علامہ مجلسی، جلد ۴۲


Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas