حبیب بن مظاہر الاسدی اور بنی اسد سے تعاون کی درخواست
حبیب بن مظاہر الاسدی اور بنی اسد سے تعاون کی درخواست
تمہید
اسلامی تاریخ میں واقعہ کربلا ایک عظیم و عبرتناک واقعہ ہے، جس میں بے مثال وفاداری و ایثار کے بے شمار مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مثال حضرت حبیب بن مظاہر کی ذات ہے، جنہوں نے امام حسین علیہالسلام کو پہنچنے والی خیانت کے باوجود ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی شخصیت نے نہ صرف امام حسین علیہالسلام کی محافطت کی بلکہ بنی اسد کے قبائلی ہونے کے سبب انہیں اعتماد میں لے کر اصل مقصد میں تعاون کی دعوت دی۔
۱۔ حضرت حبیب بن مظاہر کی شخصیت
حضرت حبیب بن مظاہر الاسدی حضرت علی، امام حسین اور امام حسن علیہالسلام کے قریبی صحابی اور وفادار اصحاب میں سے تھے۔ آپ بنی اسد قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور عمر میں 75 سال تھے۔ امام علی کرماللہ وجہہ کی خلافت میں آپ نے کئی جنگوں میں ذمہ داریاں سنبھالیں، جن میں جنگ جمل، صفین اور نہروان شامل ہیں ۔
آپ حکمت، تقویٰ اور شجاعت میں ممتاز تھے، اور ان کی وفاداری نے انہیں اہل بیت کے بیچ ایک خاص مقام عطا کیا۔
۲۔ دعوتِ حمایت کا پس منظر
جب امام حسین علیہالسلام کو کربلا کے دشوار گزار راستوں پر روانہ ہونا پڑا تو آپ نے لوگوں کو دعوت نصرت دی۔ ان خطوط میں سے ایک کئی افراد کے ذریعے امام حسین علیہالسلام کو دعوت دی گئی کہ وہ کوفہ آئیں۔ حضرت حبیب انہیں مہاجر میں شامل تھے، مگر جب کوفہ کے باشندوں نے بیعت سے رجوع کیا، تو آپ نے خود عمل قدم اٹھایا ۔
۳۔ بنی اسد سے تعاون کی درخواست
کربلا پہنچنے پر آپ نے امام حسین علیہالسلام سے اجازت لے کر بنی اسد قبیلے کے پاس شب کے سناٹے میں روانہ ہو کر انہیں دعوت دی:
"امام حسینؑ آسیبندہ ہے؛ اگر آپ اس کی مدد کریں گے تو دنیا و آخرت میں شرف حاصل ہوگا" ۔
جیسے ہی انہوں نے قبائلی رفاقت کا ذکر کیا، عبداللہ بن بشیر الاسدی نے پہلے بیعت کی، اور قریباً 90 جنگجو رضامند ہوئے (al-islam.org)۔
۴۔ زمینی حالات اور ابتدائی لڑائیاں
حضرت حبیب امت کو امام حسین علیہالسلام کی رہنمائی و حق میں شرکت کی ترغیب دینے پہنچے، مگر دشمنی کے باعث کوفہ کے حکمران عمر بن سعد نے فوراً چار سو فوج انہیں روکنے کے لیے بھیجی ۔
یہ ابتدائی لڑائی دریائے فرات کے پاس ہوئی، جہاں بنی اسد کے نمائندوں میں سے چند شہید ہوئے اور باقی خوف سے واپس کوفہ لوٹے ۔
۵۔ حضرت حبیب کا امام حسین علیہالسلام کے پاس واپسی
Back to camp, حضرت حبیب نے امام کو شکستہ دل خبر سنائی۔ امام نے ارشاد فرمایا:
"لا حول ولاقوة إلا بالله العليّ العظيم" (shiavault.com)۔
یہ الفاظ ثابت قدمی اور اللہ کی رحمت پر یقین کا بہترین نمونہ تھے۔
۶۔ کربلا کی ابتدائی شب اور حضرت زینب کا استقبال
امام حسین علیہالسلام کے شیراز و حویلی پر پہنچنے پر حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جب حضرت حبیب کو سنا، تو ان سے سلام بھیجا ۔
حضرت حبیب کی عمر کے باوجود جوانوں جیسا ولولہ ان کی وفاداری کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔
۷۔ یوم عاشورا پر شہادت
10 محرم 61ھ (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو جب محاذ پر صورتحال تشویشناک ہوئی، حضرت حبیب نے بائیں ونگ کی قیادت سنبھالی (en.wikipedia.org)۔
ان کی بہادری ایسی تھی کہ انہوں نے تقریباً 62 لشکریوں کو قتل کیا ۔
آخرکار بدیع بن مریم العفانی نے ان کی شہادت کا سبب بنا – نیز دشمن نے ان کا سر قلم کر لیا ۔
۸۔ امام حسین علیہالسلام کا رنج
حضرت حبیب کی شہادت پر امام نے فرمایا:
"میں اپنے اور اپنے وفاداروں کو فدا کرتا ہوں" ۔
یہ کربلا کا وہ لمحہ تھا جس میں وفا و قربانی کے پیمانے بلآخر اعلیٰ ترین سطح پر پہنچے تھے۔
۹۔ قبر اور زیارت
حضرت حبیب کی قبر، کربلا میں موجود امام حسین علیہالسلام کے حرم کے جنوبی دروازے کے پاس واقع ہے ۔
مشہور زیارات، خصوصاً زیارت ناحیہ مقدّسہ میں بھی ان کا ذکر آیا ہے ۔
۱۰۔ اس واقعہ کا پیغام و عبرت
۱) قبائلی رشتہ، نبوی وفاداری
حضرت حبیب نے قبول کیا کہ رسالت کے خاندان کے ساتھ رشتہ ان کے لیے ایک فرض ہے، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔
۲) دعوتِ نصرت میں بے مثال استقامت
جہاں دوسرے پیچھے ہٹ گئے، انہوں نے ثابت قدمی کا ثبوت دیا، باوجود اس کے کہ نظمِ اجتماع مخالف تھا۔
۳) عوام کا خوف، حقیقی ایمان کا امتحان
کوفہ کے لوگوں نے غلامی و سیاسی زور کی بنا پر پیچھے ہٹا دیا، مگر حضرت حبیب نے ثابت قدمی کے ساتھ موقف جاری رکھا۔
۴) قربانی کا عروج
وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر امام کی حمایت میں مصروف رہے، اور ان کی شہادت نے راستے کی روشن مثال قائم کی۔
۱۱۔ نتیجہ
حضرت حبیب بن مظاہر الاسدی کی شخصیت میں ہمیں وفاداری، شجاعت، اور قربانی کے ایسے اصول ملتے ہیں جو آج بھی ہر دور کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی مدد کا جذبہ، قبائلیت کا احساس اور تقوی و محبت رسول صلیاللہ علیہوآلہ وسلم انہیں تاریخ میں امر کر گیا۔ حضرت حبیب نے ثابت کیا کہ عشقِ نبوی صرف زبان کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ حقیقت میں کردار و عمل کا نام ہے۔
✦ حضرت حبیب بن مظاہر الاسدیؓ: وفا کا مینار
حضرت حبیب بن مظاہر الاسدیؓ کا نام تاریخِ کربلا میں وفا، شجاعت، اور صدقِ ایمانی کی درخشاں علامت کے طور پر محفوظ ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے تھا جو عراق کے مشہور قبائل میں سے ایک ہے۔
✦ تاریخی پس منظر
-
حضرت حبیب بن مظاہرؓ کی عمر 75 سال کے لگ بھگ تھی۔
-
آپ سابقہ صحابہ کرام میں شامل تھے اور حضرت علیؑ کے مخلص اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔
-
آپ نے جنگِ صفین، جمل اور نہروان میں شرکت کی۔
-
جب امام حسینؑ کربلا پہنچے تو حضرت حبیبؓ نے کوفہ سے چپکے سے نکل کر کربلا میں شمولیت اختیار کی۔
✦ بنی اسد سے مدد کی درخواست
حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حضرت زین العابدینؑ اور حضرت زینبؑ نے شہداء کی تدفین کے لیے بنی اسد سے مدد طلب کی۔ تاریخ میں مذکور ہے:
"بنی اسد نے لاشوں کو پہچان نہ پایا، حضرت زین العابدینؑ نے آ کر ہر شہید کی نشاندہی فرمائی، اور بنی اسد کی مدد سے تدفین عمل میں آئی۔"
ــ بحارالانوار، جلد 45، صفحہ 174
البتہ، حضرت حبیبؓ نے واقعہ کربلا سے قبل ہی بنی اسد کو متوجہ کیا اور انہیں امامؑ کی نصرت کی طرف بلایا، مگر وہ اس وقت میدان میں آنے سے گریزاں رہے۔
✦ تحقیقاتی مآخذ
-
تاریخ طبری – ابن جریر طبری
-
الارشاد – شیخ مفید
-
بحار الانوار – علامہ مجلسی، جلد 45
-
مقتل الحسینؑ – ابومخنف
-
ابصار العین فی انصار الحسینؑ – شیخ محمد سماوی
-
جلا العیون – علامہ مجلسی
✦ حضرت حبیبؓ کا منظوم ذکر
یہاں چند اشعار شامل کیے جا رہے ہیں جو حضرت حبیبؓ کی وفاداری و عظمت کو بیان کرتے ہیں:
چلا آیا وفا کا تاج دارِ کربلا کے پاس
کہیں حبیبؓ کی مثال دنیا میں نہ ملی
سفینے کو بچانے جب حسینؑ تنہا کھڑے تھے
تو بڑھ کے حبیبؓ نے بادبان تھام لیا تھا
کوفہ کی گلیوں میں چراغِ حق جلایا تھا
جس کوفے نے بیعت توڑی، وہاں وفا نبھایا تھا
✦ بنی اسد سے مکالمہ (فرضی مکالمہ بر اساسِ تاریخی روایت)
حبیبؓ: "اے میرے قبیلہ کے جوانو! حسینؑ ابنِ علیؑ، دینِ محمدؐ کا چراغ، تنہا کربلا میں کھڑا ہے، کیا تم اُسے یزید کے حوالے کر دو گے؟"
بنی اسد: "اے حبیب! ہم حسینؑ کو محبوب رکھتے ہیں، مگر کوفہ کا حال تم جانتے ہو، دشمن چاروں طرف ہے۔"
حبیبؓ: "تم اگر میدان میں نہ آئے تو تاریخ گواہی دے گی کہ بنی اسد نے حسینؑ کو پکار سنی اور خاموشی اختیار کی!"
✦ فکری و قلبی پیغام
حضرت حبیب بن مظاہرؓ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ:
-
وفاداری رشتوں کی نہیں، حق کی ہوتی ہے۔
-
جسمانی کمزوری وفا میں حائل نہیں ہو سکتی۔
-
ایک فرد بھی تاریخ کا دھارا موڑ سکتا ہے۔
✦ اختتامیہ دعا
یا اللہ! ہمیں حضرت حبیبؓ جیسے اصحاب کی سیرت اپنانے کی توفیق دے،
جو حق کے لیے جیتے تھے، اور حق پر شہید ہوئے۔
Comments