سیرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے اہم پہلو
- یقیناً، یہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ پر ایک 1000 الفاظ پر مشتمل مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون اردو زبان میں ہے اور سیرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔
- وصال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
اسلام کی تاریخ عظیم شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے کردار، تقویٰ، ایثار، اور قربانیوں سے دین اسلام کو مضبوطی عطا کی۔ انہی ہستیوں میں ایک درخشاں نام حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ رسول اکرم ﷺ کے قریبی صحابہ میں سے تھے، عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، اور تیسرے خلیفۂ راشد کے طور پر اسلامی ریاست کو وسعت دینے اور امت مسلمہ کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی شہادت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے، جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے ایک درس اور نصیحت کا ذریعہ ہے۔
- حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تعارف
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے بنو امیہ قبیلے سے تھا۔ آپ کا نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ کی شخصیت پاکیزگی، صداقت، اور دیانتداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ آپ کا لقب "غنی" اس وجہ سے مشہور ہوا کہ آپ بے حد سخی تھے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔
آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا اور یوں اولین مسلمانوں میں شامل ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی شادی اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے کی۔ ان کی وفات کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کیا۔ اس وجہ سے آپ کو "ذوالنورین" یعنی "دو نوروں والا" کہا جاتا ہے۔
- خلافتِ عثمانی کا آغاز
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد 24 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی خلافت کا دور تقریباً بارہ سال پر محیط تھا۔ ابتدائی چھ سال فتوحات، عدل و انصاف، اور اسلامی نظم و نسق کے لحاظ سے نہایت شاندار تھے۔ اس دوران اسلامی سلطنت نے ایران، روم، اور شمالی افریقہ میں مزید فتوحات حاصل کیں۔ آپ نے بحری فوج کی بنیاد رکھی اور قرآن مجید کی تدوین کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔
- قرآن مجید کی تدوین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب اسلامی سلطنت مختلف علاقوں میں پھیل چکی تھی، تو قرآن مجید کی تلاوت مختلف لہجوں میں ہونے لگی، جس سے اختلافات پیدا ہونے لگے۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جس نے قرآن کو قریشی لہجے میں ایک مصحف کی صورت میں جمع کیا۔ اس مصحف کو "مصحف عثمانی" کہا جاتا ہے اور آج بھی دنیا بھر کے مسلمان اسی ترتیب و قراءت کو اختیار کرتے ہیں۔
- فتنہ کا آغاز
خلافت کے آخری چھ سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے نہایت کٹھن اور آزمائش کے تھے۔ اسلامی ریاست میں کئی نئے لوگ داخل ہوئے جنہوں نے سیاسی مفادات اور ذاتی عناد کی بنیاد پر انتشار پیدا کرنا شروع کیا۔ عبداللہ بن سبا جیسے منافقین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف غلط فہمیاں پھیلائیں۔ آپ کی نرم طبیعت اور عفو و درگزر کے مزاج کا فائدہ اٹھا کر باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔
آپ نے خون ریزی سے بچنے کی خاطر جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ صحابہ کرام نے دفاع پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے مدینہ میں خون بہے۔"
- شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ
18 ذوالحجہ، 35 ہجری کو جمعہ کے دن جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روزے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے، باغیوں نے ان کے گھر میں گھس کر مظلومانہ طریقے سے شہید کر دیا۔ روایت کے مطابق آپ کے جسم سے پہلے خون کا قطرہ اس مقام پر گرا جہاں قرآن مجید کی یہ آیت لکھی تھی:
فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ"(سورہ البقرہ: آیت 137)"
"تو اللہ آپ کے لیے کافی ہے، اور وہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے۔"
آپ کی عمر اس وقت تقریباً 82 سال تھی۔ آپ کی شہادت کے بعد مدینہ میں انتشار پھیل گیا اور خلافت کا نظام عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔
- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی صفات
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی بے شمار خوبیوں سے مزین تھی۔ آپ کی چند نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
-
سخاوت: غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے ایک ہزار اونٹ، سو گھوڑے، اور بے شمار مال اللہ کے راستے میں دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اس کے بعد عثمان جو چاہے کرے، اسے کوئی نقصان نہ ہوگا۔" -
حیاء: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"عثمان سب سے زیادہ باحیا ہے، یہاں تک کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔" -
تدبر و بصیرت: آپ نے اپنے دورِ خلافت میں نظم و نسق، فتوحات، اور قرآن کی تدوین جیسے عظیم الشان کارنامے سر انجام دیے۔
-
تحمل و بردباری: فتنہ کے دوران آپ نے تحمل، بردباری، اور صبر کا ایسا مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک ایک مثال ہے۔
- وصال کی اہمیت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وصال ایک ایسا واقعہ ہے جو مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ امت کو باہمی اتحاد، رواداری، اور سنجیدگی سے چلانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے اپنے کردار سے یہ پیغام دیا کہ اقتدار کے لیے خون بہانا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا افضل ہے۔
- نتیجہ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا وصال تاریخ اسلام کا وہ المناک لمحہ ہے جس نے امت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آپ کی قربانی نے اسلام کو ایک نئی جہت دی اور ہمیں یہ سبق سکھایا کہ حق پر ڈٹے رہنا اور باطل کے سامنے سر نہ جھکانا ہی اصل کامیابی ہے۔ آج اگر ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت، صبر، حیاء اور سخاوت کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرلیں، تو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہمارے مسائل کا حل ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت سے سیکھنے، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Comments