حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی شادی: ایک تاریخی اور روحانی سفر
از قلم: مفتی عثمان صدیقی
تمہید
اسلامی تاریخ میں امہات المومنین کو جو بلند مقام حاصل ہے، وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کے باعث ہے بلکہ ان کے اخلاق، کردار، ایثار، اور دینِ اسلام کے فروغ میں ان کے کردار کی وجہ سے بھی ہے۔ ان عظیم خواتین میں ایک عظیم المرتبت نام حضرت صفیہ بنت حییّ بن اخطب رضی اللہ عنہا کا ہے۔ آپ کی زندگی کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ آپ ایک یہودی قبیلے کے سردار کی بیٹی ہونے کے باوجود اسلام کی آغوش میں آئیں اور سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی زوجہ محترمہ بنیں۔
حضرت صفیہؓ کا نسب اور خاندانی پس منظر
حضرت صفیہؓ یہود کے مشہور قبیلہ بنو نضیر کے سردار حییّ بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ آپ کا نسب حضرت ہارون علیہ السلام تک پہنچتا ہے، یعنی آپ ساداتِ بنی اسرائیل میں سے تھیں۔ آپ کی والدہ کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، یوں آپ دونوں بڑے یہودی قبائل کی نمائندہ تھیں۔
آپ کی پہلی شادی سلام بن مشکم سے ہوئی، لیکن جلد ہی طلاق ہو گئی۔ دوسری شادی کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوئی جو قلعہ قموص کے خزانے کا نگہبان اور بنو نضیر کا ایک بڑا سردار تھا۔
غزوہ خیبر اور حضرت صفیہؓ کی قید
7 ہجری میں جب مسلمانوں نے خیبر پر چڑھائی کی، تو حضرت صفیہؓ اپنے شوہر کنانہ کے ساتھ قلعہ قموص میں موجود تھیں۔ جنگ کے بعد جب قلعہ فتح ہوا تو کنانہ کو ایک معرکے میں قتل کر دیا گیا اور حضرت صفیہؓ قیدی بن گئیں۔ شروع میں ایک صحابی نے ان کے قیدی ہونے کی درخواست کی، مگر جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ یہ سردار کی بیٹی اور نبی ہارونؑ کی نسل سے ہیں، تو آپ ﷺ نے انہیں عزت کے ساتھ اپنے لیے منتخب کیا۔
آزادی اور نکاح
رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہؓ کو آزادی عطا کی اور فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام قبول کر کے نکاح کر لیں۔ حضرت صفیہؓ نے فوراً اسلام قبول کیا اور کہا:
"میں نے رسول اللہ ﷺ سے بہتر کسی کو نہیں پایا، میں اسلام قبول کرتی ہوں۔"
اس طرح نبی کریم ﷺ نے حضرت صفیہؓ سے نکاح فرمایا اور ان کی آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دیا۔
ولیمہ اور سادگی
آپ ﷺ نے حضرت صفیہؓ کے ساتھ سادگی سے ولیمہ کیا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
"نبی کریم ﷺ نے حضرت صفیہؓ کے ولیمہ میں نہ گوشت پکایا، نہ روٹی، صرف کھجور، پنیر اور گھی رکھا۔" (صحیح بخاری)
یہ اسلامی سادگی کا عملی مظاہرہ تھا۔
حضرت صفیہؓ کا کردار اور ایمان
حضرت صفیہؓ نہایت عبادت گزار، صابر، اور صاحبِ علم خاتون تھیں۔ آپ اکثر رات کو عبادت کرتی تھیں، قرآن پڑھتی تھیں، اور اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے ان کے بعض مواقع پر معمولی اختلافات بھی روایت ہوئے ہیں، جن میں نبی ﷺ نے ہمیشہ حضرت صفیہؓ کی عزت و عظمت کا دفاع فرمایا۔
ایک موقع پر حضرت عائشہؓ نے حسد میں حضرت صفیہؓ کو "یہودی کی بیٹی" کہا، تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"عائشہ! تم نے بہت سخت بات کہی ہے، کیا تم نہیں جانتیں وہ نبی ہارون کی نسل سے ہیں، ان کا چچا نبی موسیٰ ہیں، اور وہ میری بیوی ہیں۔"
جذباتی نثر اور اشعار
جب حضرت صفیہؓ نے اسلام قبول کیا، تو مدینہ کی فضاؤں میں یہ صدا گونجی:
"نسب کا غرور مٹ گیا، ایمان غالب آ گیا، سرداروں کی بیٹی اب ام المومنین ہے۔"
شاعر نے کہا:
نسب بنی اسرائیل، ایمان کی روشنی
صفیہؓ ہوئی محبوبِ نبی کی زندگی
خیبر کی مٹی نے دیکھا وہ منظر
جب اسلام نے فتح دی نسلی بلندیوں پر
حکمتِ نبوی ﷺ
نبی کریم ﷺ کا حضرت صفیہؓ سے نکاح فقط ذاتی فیصلہ نہ تھا، بلکہ اس میں کئی حکمتیں تھیں:
-
یہودیوں کے دلوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو۔
-
دشمن قبائل میں پیغام جائے کہ اسلام عزت و شرافت دیتا ہے۔
-
اسلام میں نسل یا قومیت کی بنیاد پر تفریق نہیں۔
حضرت صفیہؓ کا بعد کا کردار
حضرت صفیہؓ نے خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی مدینہ میں قیام کیا۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں جب مدینہ میں فتنہ برپا ہوا تو آپ نے خادم کو بھیجا کہ لوگوں کو سمجھائے کہ خلیفۂ وقت کی مخالفت نہ کریں۔
وصال
حضرت صفیہؓ کا وصال 50 ہجری میں ہوا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریباً 60 برس تھی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
نتیجہ
حضرت صفیہؓ کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ:
-
اسلام میں شرافت و عظمت تقویٰ سے ہے۔
-
اگر نیت خالص ہو تو دشمن کا دل بھی ایمان کی روشنی سے بھر سکتا ہے۔
-
رسول اللہ ﷺ کی ازدواجی زندگی فقط ذاتی نہیں، بلکہ دینی و سیاسی حکمت کا نمونہ تھی۔
اہم مراجع
-
صحیح بخاری، کتاب المغازی
-
سیرت ابن ہشام
-
طبقات ابن سعد
-
دلائل النبوۃ – امام بیہقی
-
تاریخ الطبری
-
الاصابہ فی تمییز الصحابہ – ابن حجر عسقلانی
Comments