حضرت محمد بن حنفیہؒ کا وصال
یقیناً! نیچے حضرت محمد بن حنفیہؒ کے وصال پر مبنی اسی مضمون کو اشعار اور حوالہ جات کے ساتھ بہتر انداز میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس میں ادبی حسن اور تحقیقی معیار دونوں شامل ہوں:
حضرت محمد بن حنفیہؒ کا وصال – ایک تحقیقی و ادبی جائزہ
تمہید
حضرت محمد بن حنفیہؒ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فرزند، اور اہل بیتِ اطہار کے درخشندہ ستاروں میں سے ایک نمایاں ہستی تھے۔ آپ کی علمی، روحانی، سیاسی اور اخلاقی عظمت مسلم ہے۔ آپ کا وصال ایک ایسا لمحہ تھا، جس نے اہل علم و تقویٰ کے دلوں کو مغموم کیا۔
شاعر کہتا ہے:
آسمان رو رہا تھا چپکے چپکے
جب چراغِ علی کا بیٹا بجھا تھا
نسب اور نام
آپ کا نام محمد اور لقب ابنِ حنفیہ تھا۔ والد حضرت علیؓ اور والدہ خولہ بنت جعفر تھیں، جو بنو حنیفہ قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں۔
حوالہ:
-
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج 5، ص 72
-
ابن حجر، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج 3، ص 341
علمی مقام
حضرت محمد بن حنفیہؒ نہ صرف زاہد و عابد تھے، بلکہ فقیہ، محدث اور سیاسی بصیرت رکھنے والے بھی تھے۔ امام زہریؒ، امام شعبیؒ اور امام عکرمہؒ جیسے تابعین نے آپ سے علمی استفادہ کیا۔
شاعر نے خوب کہا ہے:
نہ صرف خونِ علیؓ کا وارث تھا
وہ علم و حلم کا بھی پیکر تھا
حوالہ:
-
الذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 121
واقعہ کربلا اور موقف
امام حسینؓ نے آپ کو مدینہ میں بطور نائب چھوڑا تاکہ اہل بیتؓ کی سیاسی و روحانی قیادت جاری رہے۔ آپ نے واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدینؒ کی امامت کو تسلیم کیا۔
آپ کے الفاظ:
"امام حسینؓ نے اپنی جان قربان کر کے امت کو بیدار کیا، اور اب امام زین العابدینؒ کی قیادت پر ایمان لانا ہمارا فرض ہے۔"
وصال کے اسباب و وقت
حضرت محمد بن حنفیہؒ کا وصال 74 ہجری (بعض کے مطابق 80 ہجری) میں ہوا۔ یہ واقعہ مدینہ منورہ یا طائف میں پیش آیا۔ آپ کی وفات طبعی تھی اور کوئی ظاہری یا سیاسی سبب نہیں تھا۔
حوالہ:
-
ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج 2، ص 179
-
الطبری، تاریخ الامم والملوک، ج 6، ص 215
تدفین
اکثر مؤرخین کے مطابق آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ بعض مؤرخین طائف کے مقام کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
کیسانیہ تحریک
آپ کی وفات کے بعد مختار ثقفی کے پیروکاروں نے آپ کو "امام مہدی" قرار دیا اور غیبت کا عقیدہ ایجاد کیا۔ یہ گروہ کیسانیہ کے نام سے جانا گیا، جسے اہل سنت و تشیع کے معتبر علماء نے رد کیا۔
حوالہ:
-
النوبختی، فرق الشیعہ، ص 22
-
اشعری، مقالات الاسلامیین، ج 1، ص 76
وصال پر مرثیے اور اشعار
آپ کے وصال پر کئی اہل قلم نے مرثیے کہے۔ ذیل میں چند منتخب اشعار پیش ہیں:
ابنِ علیؓ تھا، وارثِ زہرا نہ تھا
پر دل کا ہر گوشہ مہدی سے کم نہ تھا
اک چراغ تھا جو خاموش ہوا
پھر بھی نور اس کا کہکشاں بن گیا
شخصیت کے روشن پہلو
1. علم و فقہ:
آپ اہل مدینہ میں مرجعِ فتویٰ تھے۔ آپ کے فتاویٰ کی روایت امام عطاءؒ، امام زہریؒ اور امام اوزاعیؒ نے کی۔
2. تواضع:
آپ نے امامت کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی بیعت کی۔
"میں امامت کا دعویدار نہیں، یہ منصب میرے بھائیوں کا ہے۔"
(حوالہ: ابن سعد، الطبقات، ج 5، ص 74)
وصال کے بعد کی کیفیت
آپ کے وصال کے بعد اہل مدینہ میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بڑے بڑے تابعین اور علماء نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ امام زہریؒ نے فرمایا:
"آج علم کا ایک دریا سو گیا۔"
نتیجہ
حضرت محمد بن حنفیہؒ کا وصال اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، جس نے علمی، روحانی اور دینی دنیا کو مغموم کر دیا۔ مگر آپ کی زندگی، علم، تقویٰ، اور عدل کی روشنی آج بھی چراغِ راہ ہے۔
دعا:
اے ربِ مصطفیٰ، صدقہ ابنِ حنفیہ کا
ہم کو بھی کر عطا، حلم و وفا کی دولت
ماخذ و مصادر (حوالہ جات)
-
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دار الکتب العربیہ، بیروت
-
امام طبری، تاریخ الامم والملوک، دار المعارف، قاہرہ
-
ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ
-
الذہبی، سیر اعلام النبلاء
-
النوبختی، فرق الشیعہابن خلدون، تاریخ ابن خلدون
-
اشعری، مقالات الاسلامیین
Comments