عمر بن سعد کی کربلا آمد:
عمر بن سعد کی کربلا آمد: ایک تاریخی و اخلاقی جائزہ
اسلامی تاریخ میں واقعۂ کربلا کو ایک عظیم المیہ، قربانی اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس واقعے میں جہاں امام حسینؓ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے اپنے لہو سے تاریخ رقم کی، وہیں اس المیے کے بعض کردار ہمیشہ کے لیے تاریخ کی عدالت میں مجرم قرار پائے۔ ان ہی کرداروں میں سے ایک عمر بن سعد بن ابی وقاص بھی ہے، جو کربلا کی جنگ میں یزید کی طرف سے لشکر کا سپہ سالار مقرر ہوا۔
پس منظر: عمر بن سعد کا نسب اور ابتدائی حالات
عمر بن سعد، مشہور صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا تھا، جنہیں اسلام کی فتوحات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسلام کے لیے عظیم خدمات انجام دیں اور کئی فتوحات میں حصہ لیا، لیکن ان کا بیٹا عمر بن سعد، تاریخ کے بدترین کرداروں میں شامل ہو گیا۔
عمر بن سعد کی شخصیت میں دنیا طلبی، اقتدار کی خواہش، اور وقتی مفاد پرستی غالب تھی۔ اگرچہ اس کا تعلق ایک نیک اور صالح گھرانے سے تھا، مگر اس کی زندگی کے فیصلے اس کے اخلاقی زوال کی علامت بنے۔
کوفہ میں سیاسی حالات اور یزید کی حکومت
یزید بن معاویہ کے دورِ حکومت میں جب امام حسینؓ نے بیعت سے انکار کیا اور مدینہ سے مکہ، اور پھر مکہ سے کوفہ کا ارادہ فرمایا، تو کوفہ کے عوام نے ہزاروں خطوط امام حسینؓ کو لکھے کہ وہ کوفہ تشریف لائیں۔ امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ حالات کا جائزہ لیں۔ مسلم بن عقیل کو ابتدائی طور پر کوفہ والوں کی طرف سے حمایت ملی، مگر بعد میں عبیداللہ بن زیاد کی سختیوں اور دھمکیوں کے باعث کوفی عوام پیچھے ہٹ گئے اور مسلم کو شہید کر دیا گیا۔
یہاں سے واقعۂ کربلا کی بنیاد پڑی۔ امام حسینؓ جب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں امام حسینؓ کو بیعت پر مجبور کرے یا انہیں قتل کر دے۔ عبیداللہ نے عمر بن سعد کو بلایا اور کہا کہ اگر وہ امام حسینؓ کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو جائے تو اسے ری کی گورنری دی جائے گی۔
ری کی گورنری کا لالچ اور عمر بن سعد کی تذبذب
عمر بن سعد کوفہ میں ایک درمیانے درجے کا بااثر شخص تھا، جو مال و دولت کا خواہش مند تھا۔ جب اسے عبیداللہ نے ری کی گورنری کی پیشکش کی تو وہ تذبذب کا شکار ہو گیا۔ اسے احساس تھا کہ امام حسینؓ نواسۂ رسول ہیں اور ان کے خلاف تلوار اٹھانا دنیا و آخرت کی بربادی ہے، مگر اس کے دل میں اقتدار کی خواہش نے ایمان کو دبا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ عمر بن سعد نے کچھ دن سوچنے کے لیے مہلت مانگی۔ اس دوران اس نے کئی بار دل ہی دل میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہوگا، مگر جب ری کی گورنری کا لالچ غالب آیا، تو اس نے اپنی آخرت کو دنیا کے عارضی فائدے کے لیے قربان کر دیا۔
عمر بن سعد کی کربلا آمد
جب امام حسینؓ قافلہ لے کر کربلا پہنچے تو عمر بن سعد ایک ہزار کا لشکر لے کر کربلا آ پہنچا۔ امام حسینؓ نے اس سے بات چیت کی اور فرمایا کہ وہ کسی صورت یزید کی بیعت نہیں کریں گے، کیونکہ یزید ظلم و فساد کا علمبردار ہے۔ عمر بن سعد نے بظاہر صلح کی کوشش کا تاثر دیا، مگر حقیقت میں وہ عبیداللہ بن زیاد کو وقت دے رہا تھا تاکہ امام حسینؓ کمزور ہوں اور انہیں آسانی سے قابو کیا جا سکے۔
بعد ازاں عبیداللہ نے عمر بن سعد کو سختی سے حکم دیا کہ وہ امام حسینؓ سے یا بیعت لے یا انہیں قتل کرے۔ عمر بن سعد نے اس ناپاک حکم کو تسلیم کیا، اور ایک تاریخی ظلم کا آغاز ہوا۔
شب عاشور اور عمر بن سعد
شب عاشور امام حسینؓ نے عمر بن سعد سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ وہ اپنے اہل بیت کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو سکیں۔ عمر بن سعد نے یہ مہلت دی، مگر اس کے دل میں ندامت یا ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ اس رات امام حسینؓ اور ان کے ساتھی عبادت میں مشغول رہے جبکہ عمر بن سعد آخری حملے کی تیاری کرتا رہا۔
یوم عاشور اور ظلم کی انتہا
10 محرم الحرام 61 ہجری کو عمر بن سعد نے پہلی تیر چلا کر جنگ کا آغاز کیا اور کہا:
"گواہ رہنا، یہ پہلا تیر میں نے چلایا۔"
یہ جملہ اس کے ایمان، انصاف، اور رسول اکرمؐ کے اہل بیت سے دشمنی کی گہرائی کو واضح کرتا ہے۔ اس کے حکم پر امام حسینؓ کے ساتھیوں پر پانی بند کیا گیا، انہیں بھوکا پیاسا رکھا گیا، اور ایک ایک کر کے شہید کیا گیا۔
جب امام حسینؓ شہید ہو گئے، تو عمر بن سعد نے ان کے جسم پر گھوڑے دوڑانے کا حکم دیا، اور اہل بیت کو قیدی بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ اس موقع پر بھی اس کے دل میں کوئی ندامت یا شرم نہ تھی۔
عمر بن سعد کا انجام
اگرچہ عمر بن سعد کو وقتی طور پر ری کی گورنری کا وعدہ دیا گیا، مگر عبیداللہ بن زیاد نے بعد میں اسے نظرانداز کر دیا۔ تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ ری کی گورنری اسے کبھی نہ ملی۔ اس کے بعد مختار ثقفی نے کوفہ میں بغاوت کی اور واقعۂ کربلا میں شریک تمام مجرموں کو تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچایا۔
عمر بن سعد کو مختار کے آدمیوں نے گرفتار کیا، اور مختار کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس کا سر کاٹ کر عوام کے سامنے لایا گیا تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔
تاریخی اور اخلاقی سبق
عمر بن سعد کی زندگی اور انجام ہمیں کئی اہم سبق دیتی ہے:
-
دنیا کی محبت انسان کو گمراہ کر دیتی ہے۔
عمر بن سعد نے جنت کے سردار کے خلاف صرف ایک گورنری کے لیے تلوار اٹھائی۔ -
صالح باپ کی اولاد گمراہ ہو سکتی ہے اگر خود پر تقویٰ نہ ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ایک جلیل القدر صحابی تھے، مگر ان کا بیٹا بدترین کردار بن گیا۔ -
حق کے مقابلے میں خاموشی یا مفاہمت بھی جرم ہے۔
عمر بن سعد چاہتا تو امام حسینؓ کا ساتھ دے سکتا تھا، مگر اس نے خاموشی اختیار کی۔ -
ظلم کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔
عمر بن سعد کی زندگی ذلت اور اس کا انجام دردناک موت پر ختم ہوا۔
نتیجہ
واقعۂ کربلا میں عمر بن سعد کا کردار ایک ایسے انسان کا نمونہ ہے جو اقتدار، لالچ اور خودغرضی میں اپنے ضمیر، ایمان اور انسانیت کو بیچ دیتا ہے۔ وہ تاریخ میں نہ صرف مجرم ٹھہرا بلکہ اس کا نام آج بھی نفرت اور بدنامی کا استعارہ ہے۔ امام حسینؓ کی شہادت ہمیں حق پر قائم رہنے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے، اور دنیاوی مفاد پر آخرت کو ترجیح دینے کا درس دیتی ہے، جب کہ عمر بن سعد کی کہانی ہمیں دنیا کے فریب سے بچنے کی تنبیہ کرتی ہے۔
Comments