عنوان: مسئلہ باغِ فدک، فقہِ حنفی کی روشنی میں
از قلم: مفتی عثمان صدیقی
عنوان: مسئلہ باغِ فدک، فقہِ حنفی کی روشنی میں
باغِ فدک کا مسئلہ اسلامی تاریخ کا وہ نکتہ ہے جو نہ صرف عدالتی اور فقہی حیثیت رکھتا ہے بلکہ روحانی، اخلاقی اور سیاسی اثرات کا بھی حامل ہے۔ اس مضمون میں ہم اس مسئلے کا جائزہ فقہِ حنفی کی روشنی میں پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی کچھ اشعار اور جذباتی پہلو بھی بیان کیے جائیں گے تاکہ قارئین اس کی معنویت کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔
## تاریخی پس منظر
فدک ایک زرخیز علاقہ تھا جو خیبر کے قریب واقع تھا۔ یہ علاقہ بغیر جنگ کے حضور ﷺ کو بطورِ فَے حاصل ہوا۔ حضور ﷺ اس کی آمدنی اپنے اہل بیتؑ کی کفالت اور رفاہِ عامہ پر خرچ فرمایا کرتے تھے۔
وفاتِ نبوی ﷺ کے بعد حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے باغِ فدک کی ملکیت کا مطالبہ کیا، جس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی:
> "نحن معاشر الأنبياء لا نورث، ما ترکناه صدقة."
"ہم انبیاء کی جماعت مال وراثت نہیں چھوڑتی، جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔"
## فقہِ حنفی میں تجزیہ
فقہِ حنفی کی رو سے یہ حدیث صحیح اور قطعی الدلالہ ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ اس روایت کو قبول کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی ترکہ بطورِ صدقہ اُمت کی امانت ہے۔
### اصولِ وراثت
حنفی اصولِ وراثت کے مطابق:
* عام مسلمانوں کی ترکہ تقسیم ہوتی ہے۔
* انبیاء علیہم السلام کا مال امت کی ملکیت ہوتا ہے۔
* اس پر کسی کی ذاتی ملکیت قائم نہیں ہو سکتی۔
### دعویٰ ہبہ (تحفہ)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ باغِ فدک انہیں بطورِ ہبہ (تحفہ) دیا گیا تھا۔ لیکن فقہِ حنفی کے اصول کے مطابق:
* تحفہ کے لیے واضح قول، قبضہ اور شہادت ضروری ہے۔
* حضرت علیؓ اور اُمِّ ایمنؓ کی گواہی شرعی معیار پر مکمل نہ سمجھی گئی۔
لہٰذا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ ہونے کے ناطے شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کو بیت المال کے تحت ہی رکھا۔
## تاریخ میں بعد کے حالات
* حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فدک اہل بیتؑ کو واپس کیا۔
* عباسی خلیفہ المامون نے بھی فدک حضرت فاطمہؑ کی اولاد کو واپس دیا۔
* پھر دوبارہ مختلف خلفاء نے واپس لیا۔
فقہِ حنفی کی رو سے یہ سب سیاسی نوعیت کے فیصلے تھے نہ کہ شرعی و قطعی حکم۔
## اشعار میں انعکاس
> فدک کی وادی میں گونجی صدا،
> مظلومہ بیٹی نے حق مانگا تھا۔
> در و دیوار بھی روتے تھے مدینے کے،
> جب فاطمہؓ نے فریاد کی تھی خاموشی میں۔
> نہ مال چاہیے تھا نہ زمین کی ملکیت،
> بس بابا کی امانت کا احترام چاہیے تھا۔
## نتیجہ
فقہِ حنفی کے مطابق:
* باغِ فدک صدقہ تھا، قابلِ وراثت نہیں۔
* حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فیصلہ شریعت کے اصول کے عین مطابق تھا۔
* حضرت فاطمہؓ کی ناراضی ایک شخصی و جذباتی معاملہ ہو سکتا ہے، لیکن اس پر شرعی احکام تبدیل نہیں ہوتے۔
## خلاصہ
| پہلو | فقہِ حنفی کا نظریہ |
| --------------- | ------------------------ |
| وراثتِ انبیاء | ممکن نہیں |
| باغِ فدک | صدقہ ہے، ذاتی ملکیت نہیں |
| گواہی کا معیار | مکمل شرعی شہادت درکار |
| خلیفہ کا اختیار | شرعی اصول پر عمل واجب |
## اختتامی اشعار
> مظلوم فاطمہؓ کی فریاد رہ گئی،
> فدک کی مٹی میں وہ یاد رہ گئی۔
> نہ جھگڑا تھا زمین کا، نہ مال کا،
> دل جل رہا تھا بابا کے کمال کا۔
---
یہ مضمون فقہِ حنفی کے اصول، تاریخی واقعات اور جذباتی پہلوؤں کو ایک ساتھ پیش کرتا ہے تاکہ مسئلہ فدک کی حقیقت کو اہل علم اور عوام بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
از قلم: مفتی عثمان صدیقی
Comments