رُوانگی اسیرانِ کربلا بطرف کوفہ

از قلم: مفتی عثمان صدیقی



رُوانگی اسیرانِ کربلا بطرف کوفہ

ایک الم انگیز داستانِ کرب و بلا

کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا وہ اندوہناک باب ہے جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار رفقاء کی شہادت کے بعد یزیدی افواج نے جو ظلم و ستم اسیرانِ اہل بیتؑ پر ڈھایا، وہ اسلامی اقدار اور انسانی حرمت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ان مظلوموں کو کربلا سے کوفہ اور پھر شام کی طرف اسیری کی حالت میں روانہ کیا گیا۔ اس سفر کی ابتدا کربلا سے ہوئی، جو ظلمت اور اذیت کا ایک طویل سلسلہ تھا۔


کربلا کے بعد اسیری کی شروعات

10 محرم الحرام 61 ہجری کو امام حسینؑ کی شہادت کے بعد یزیدی لشکر نے خیموں کو آگ لگا دی۔ حضرت زینبؑ، امام سجادؑ اور دیگر اہل بیتؑ کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں:

"ہمیں رسن باندھ کر اونٹوں پر سوار کیا گیا، اور ہمیں ایسے گلیوں میں گھمایا گیا جیسے کافر قیدیوں کو گھمایا جاتا ہے۔"
(بحارالانوار، جلد 45، صفحہ 114)


اہل بیتؑ کی روانگی بطرف کوفہ

اسیرانِ کربلا کو کوفہ لے جانے کا حکم ابن زیاد نے دیا۔ ان قیدیوں میں امام سجادؑ، حضرت زینبؑ، حضرت ام کلثومؑ، سکینہؑ، ربابؑ اور دیگر اہل بیت شامل تھے۔ جب یہ قافلہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں لوگ انہیں تماشہ سمجھ کر دیکھتے رہے۔

قافلے والے یہ تھے نواسے نبیؐ کے،
بے کجاوے سوار، بے اماں و ولی کے۔

حضرت زینبؑ اس قافلے کی سربراہ تھیں، جنہوں نے ظلم کے ہر وار کو صبر و استقامت سے سہا۔


کوفہ میں داخلہ اور اہل کوفہ کا ردعمل

جب یہ قافلہ کوفہ کے دروازے پر پہنچا تو شہر میں کہرام مچ گیا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے، کچھ نے تعجب سے، کچھ نے شرمندگی سے، اور کچھ نے صرف تماشا دیکھنے کے لیے ان کو دیکھا۔ حضرت زینبؑ نے اپنے خطبے سے اہل کوفہ کو جھنجھوڑا۔

"اے اہل کوفہ! کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ رسولؐ کی بیٹیوں کو قیدی بنا کر لایا گیا؟"
(لہوف، سید ابن طاؤس)


حضرت زینبؑ کا خطبہ کوفہ میں

حضرت زینبؑ نے جامع اور لرزہ خیز خطبہ دیا جو کوفہ کے باسیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھا:

"اے اہل کوفہ! اے فریب دینے والو! اے دھوکہ دینے والو! تمہارے آنسو بہانے کا فائدہ کیا جب تم ہی نے میرے بھائی کو شہید کیا؟"

یہ خطبہ سن کر بہت سے لوگ رو پڑے اور کہنے لگے:

"خدا کی قسم ہم نے بہت بڑی خطا کی ہے۔"


اسیری کی حالت

اہل بیتؑ کو نہ صرف قیدی بنایا گیا بلکہ ان کی عزت و حرمت کو پامال کیا گیا۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں:

"ہمیں اونٹوں پر بغیر کجاوہ کے سوار کیا گیا، ہاتھوں میں رسن، گردنوں میں طوق، اور جسم پر زخم۔"

سجاد کا یہ حال تھا، زنجیروں میں بند،
جسم ہے بیمار اور دل ہے رشکِ درد۔


یزید کا مکروہ مقصد

یزید کا مقصد صرف حکومت بچانا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اہل بیتؑ کو ذلیل کیا جائے تاکہ خلافتِ باطل پر سوال نہ اٹھے۔ اس لیے اس نے کوفہ میں بھی ان قیدیوں کی نمائش کرائی۔

"یہ حسینؑ کا سر ہے، جو فتنہ انگیز تھا!"
(یزید کا جملہ، تاریخ طبری)

یہ جملہ یزید کی خباثت اور اس کی خلافت کے باطل ہونے کی کھلی دلیل ہے۔


اہل کوفہ کی ندامت

جب اہل کوفہ نے اہل بیتؑ کی حالت دیکھی، تو نادم ہوئے۔ کچھ نے حضرت زینبؑ سے معافی مانگی، لیکن یہ ندامت اس وقت بے سود تھی۔

کیا فائدہ اب توبہ کا،
جب لُٹا چکا ہے گلشنِ مصطفیؐ؟


اثر و پیغامِ اسیری

اہل بیتؑ کی اسیری نے امت مسلمہ کو بیدار کیا۔ حضرت زینبؑ، امام سجادؑ اور دیگر اسیران نے نہ صرف صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ یزیدیت کے خلاف فکری جہاد بھی کیا۔

شہیدوں کے خون سے جو اگا تھا پیغام،
قیدیوں نے اسے دیا عملی انجام۔


اشعار میں تاثر

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اہل بیتؑ کے مصائب کو یوں بیان کیا:

نکلی حسینؑ کی صدا صحراۓ کربلا سے،
ہل اٹھا تھا عرشِ بریں بھی ان کی ندا سے۔

ایک اور شاعر کہتا ہے:

بے رِدا، بے نعل و زین، زینبؑ روانہ ہو گئیں،
کوفہ والوں، شرم آتی ہے تمہیں؟


نتیجہ

اسیرانِ کربلا کا سفر کوفہ کی طرف ایک ایسی المیہ داستان ہے جو ہر مسلمان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے نبیؐ کے گھرانے کے ساتھ سلوک کیا۔ حضرت زینبؑ اور امام سجادؑ کی قیادت میں اس سفر نے یزیدی فریب کو بے نقاب کر دیا اور کربلا کا پیغام دنیا تک پہنچا دیا۔


مآخذ و حوالہ جات

  1. بحارالانوار، علامہ مجلسی، جلد 45

  2. لہوف، سید ابن طاؤس

  3. تاریخ طبری، ابن جریر طبری

  4. مقتلِ ابی مخنف

  5. نزھة المجالس

  6. دیوان اقبال


Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas