تحویلِ قبلہ بِجانبِ کعبہ
تحویلِ قبلہ بِجانبِ کعبہ
تمہید
اسلام کی تعلیمات میں قبلہ کی سمت ایک اہم عبادتی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمانوں کی نماز، قربانی، دعا، اور دیگر بہت سے اعمال میں قبلہ کی سمت یعنی خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنا لازم ہے۔ مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ ابتدائی ایام میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ بعد ازاں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلہ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ اس واقعہ کو "تحویلِ قبلہ" کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف عبادتی نقطۂ نظر سے اہم ہے بلکہ اس میں کئی حکمتیں، آزمائشیں اور عقیدے کی بنیادیں بھی پوشیدہ ہیں۔
قرآن مجید میں تحویلِ قبلہ کا بیان
تحویلِ قبلہ کا ذکر قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ میں تفصیل سے آیا ہے:
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَىٰهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ
(البقرہ: 144)
ترجمہ:
"ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بار بار آسمان کی طرف اپنا چہرہ پھیرتے ہیں، تو ہم ضرور آپ کو ایک قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے آپ راضی ہوں گے، تو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لیجیے۔"
قبلہ کی ابتدائی حیثیت: بیت المقدس
بعثتِ نبویؐ کے ابتدائی تیرہ سالوں میں اور ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں کچھ عرصے تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ بیت المقدس کو یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کے ہاں ایک مقدس مقام حاصل تھا۔ حضور اکرم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی تمنا
اگرچہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے سراپا تسلیم تھے، لیکن دل میں یہ تمنا تھی کہ قبلہ خانہ کعبہ کی طرف ہو، کیونکہ وہ حضرت ابراہیمؑ کا بنایا ہوا گھر تھا اور عربوں کے لیے بھی وہ تاریخی اور دینی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ ﷺ اکثر آسمان کی طرف دیکھتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ قبلہ تبدیل ہو جائے۔
تحویلِ قبلہ کا واقعہ
ہجرت کے تقریباً 16 یا 17 مہینے بعد، ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجدِ بنی سلمہ (جو اب "مسجدِ قبلتین" کہلاتی ہے) میں نمازِ ظہر یا عصر ادا فرما رہے تھے، کہ نماز کے دوران ہی جبریلؑ حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا حکم سنایا کہ اب رخ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے۔
آپ ﷺ نے فوراً دورانِ نماز ہی اپنا چہرہ بیت المقدس سے موڑ کر خانہ کعبہ کی طرف کیا۔ پیچھے صحابہ کرامؓ نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ اپنی سمت تبدیل کی۔
صحابہ کرامؓ کا جذبۂ اطاعت
یہ تحویلِ قبلہ کا واقعہ صحابہ کرامؓ کی بے مثال اطاعت کا بھی مظہر ہے۔ انہوں نے بغیر کسی جھجک یا سوال کے فوراً اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ نہ کوئی تاخیر، نہ اعتراض، نہ بحث—یہی اسلامی عقیدے کی بنیاد ہے۔
منافقین اور یہود کا اعتراض
تحویلِ قبلہ کے بعد یہود اور منافقین نے مختلف اعتراضات اٹھائے:
-
بعض نے کہا: “اگر پہلا قبلہ درست تھا تو اب تبدیلی کیوں؟”
-
بعض نے طعنہ دیا کہ “محمدؐ خود ہی قبلہ بدلتے ہیں، یہ دین نہیں کھیل ہے۔”
قرآن مجید نے ان کے اعتراضات کا جواب دیا:
سَيَقُولُ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَ ٱلنَّاسِ مَا وَلَّىٰهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ ٱلَّتِى كَانُواْ عَلَيْهَا ۚ
(البقرہ: 142)
ترجمہ:
"بے وقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا جس پر وہ پہلے تھے؟"
حکمتِ تحویلِ قبلہ
اللہ تعالیٰ کی ہر بات میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں۔ قبلہ کی تبدیلی میں بھی کئی اہم حکمتیں پوشیدہ ہیں:
1. امتحانِ ایمان:
تحویلِ قبلہ ایک آزمائش تھی کہ کون دل سے اللہ کا تابع ہے اور کون صرف رسم کا پابند ہے۔ اس واقعے کے بعد سچے مسلمان اور منافق میں فرق نمایاں ہو گیا۔
2. اسلام کی مستقل حیثیت:
اسلام کو ایک الگ تشخص دینے کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کا قبلہ بھی الگ ہو۔ اگر بیت المقدس ہی ہمیشہ کے لیے قبلہ رہتا تو دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ اسلام یہودیت کا تسلسل ہے۔
3. خانہ کعبہ کی مرکزیت:
تحویلِ قبلہ نے خانہ کعبہ کو اسلام کا مرکز قرار دے دیا، جو حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا نتیجہ تھا:
رَبَّنَا إِنِّىٓ أَسْكَنْتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ
(ابراہیم: 37)
فقہی پہلو
تحویلِ قبلہ کے فقہی مسائل بھی ہیں:
-
جو نماز بیت المقدس کی طرف پڑھی گئی وہ درست ہے۔
-
قرآن میں فرمایا گیا:
وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْ
(البقرہ: 143)
علماء کے مطابق یہاں "ایمان" سے مراد "نماز" ہے، یعنی جو نمازیں پرانے قبلے کی طرف پڑھی گئیں، وہ ضائع نہیں ہوں گی۔
مسجدِ قبلتین
وہ مقام جہاں نماز کے دوران قبلہ تبدیل ہوا، آج بھی محفوظ ہے۔ اسے "مسجدِ قبلتین" یعنی "دو قبلوں والی مسجد" کہا جاتا ہے۔ یہ مدینہ منورہ میں واقع ہے اور ہزاروں زائرین ہر سال وہاں حاضری دیتے ہیں۔
امتِ محمدیہ کا قبلہ: خانہ کعبہ
تحویلِ قبلہ کے بعد خانہ کعبہ ہی قیامت تک تمام مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں، جو اتحادِ امت کی عظیم مثال ہے۔
شاعری میں تحویلِ قبلہ
اردو شاعری میں بھی اس واقعے کو عقیدت سے یاد کیا گیا ہے:
رخ پھرا قبلہ بدل گیا، یہ شانِ مصطفیؐ ہے
فرشتے بھی حیران تھے، یہ کتنا باوفا ہے
سبق و پیغام
تحویلِ قبلہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
-
اطاعتِ رسولؐ: کسی حکم پر عمل میں دیر نہ ہو، چاہے وہ دورانِ نماز ہو۔
-
اتحادِ امت: سب مسلمان ایک مرکز اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ایک ہی نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔
-
عقیدے کی پختگی: دین میں تبدیلی صرف اللہ کے حکم سے ممکن ہے، اور مومن وہ ہے جو فوراً عمل کرے۔
اختتامیہ
تحویلِ قبلہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک سنگِ میل ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک عبادتی رخ کی تبدیلی ہے، بلکہ اس میں امت کے لیے عقیدے، اطاعت، اتحاد اور تشخص کے عظیم اسباق پوشیدہ ہیں۔ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنا صرف ظاہری عبادت نہیں بلکہ یہ ایک عہد ہے کہ ہم صرف اللہ کے حکم کے پابند ہیں، اور ہمیں دین میں مکمل اطاعت کا نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات سے سیکھنا ہے۔
Comments