حصین بن نمیر کی کربلا آمد

 "مفتی عثمان صدیقی"

 حصین بن نمیر کی کربلا آمد"۔ ،" 


حصین بن نمیر کی کربلا آمد

اسلامی تاریخ کے سب سے دردناک اور دل دہلا دینے والے واقعے، واقعہ کربلا، نے پوری انسانیت کو صبر، وفا، قربانی، اور حق و باطل کے درمیان فرق کا درس دیا۔ اس واقعے کے کئی کردار ہیں جو اپنے عمل اور فیصلوں کے ذریعے تاریخ کے روشن یا تاریک گوشوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے۔ انہی میں سے ایک کردار حصین بن نمیر کا بھی ہے، جس کا نام کربلا کے پس منظر میں بار بار سامنے آتا ہے۔

ابتدائی تعارف

حصین بن نمیر السکونی قبیلہ کِندہ سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ شام (دمشق) کے گورنر یزید بن معاویہ کے خاص سپاہی اور درباری افراد میں سے تھا۔ اس کی پہچان ایک سخت دل، جنگجو، اور یزید کے وفادار کے طور پر ہوتی ہے۔ وہ کئی فتوحات میں شریک رہا اور بالآخر کربلا کے سانحے میں بھی اس نے اپنا کردار ادا کیا۔

کوفہ کی سیاست اور یزیدی حکمت عملی

جب امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور مکہ سے کوفہ کا سفر اختیار کیا، تو یزید نے کوفہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے پہلے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر مقرر کیا۔ عبیداللہ بن زیاد نے کوفہ میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے مختلف فوجی کمانڈروں کو کوفہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں تعینات کیا۔ انہی کمانڈروں میں حصین بن نمیر بھی شامل تھا۔

حصین بن نمیر کا کوفہ میں کردار

حصین بن نمیر کو کوفہ کے راستوں اور اردگرد کے مقامات پر نگرانی کا حکم دیا گیا تاکہ امام حسینؑ اور ان کے قافلے کو کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیا جائے۔ اس کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ کسی بھی صورت امام حسینؑ کو عوام سے ملنے نہ دیا جائے اور ان کے اثر و رسوخ کو روکا جائے۔ اس نے راستوں پر فوجی پہرے بٹھائے اور امامؑ کے نمائندوں اور کوفیوں کے درمیان رابطہ منقطع کر دیا۔

کربلا کی طرف امام حسینؑ کا سفر

جب امام حسینؑ کربلا کی جانب بڑھ رہے تھے تو عبیداللہ بن زیاد نے حر بن یزید ریاحی کو امام حسینؑ کو روکنے بھیجا۔ حر نے امام حسینؑ کو کربلا کے میدان میں محصور کر دیا اور اسی دوران حصین بن نمیر اور دوسرے کمانڈروں کو بھی لشکر یزید میں شامل ہونے کے لیے طلب کیا گیا۔ حصین بن نمیر ایک بڑی فوج کے ساتھ پہنچا اور کربلا کے محاذ پر تعینات ہو گیا۔

کربلا میں حصین بن نمیر کا کردار

اگرچہ واقعہ کربلا میں سب سے نمایاں یزیدی کمانڈر عمر بن سعد تھا، مگر حصین بن نمیر بھی ان کمانڈروں میں شامل تھا جو امام حسینؑ کے خلاف جنگی حکمت عملی طے کر رہے تھے۔ تاریخ کی بعض روایات کے مطابق، حصین بن نمیر ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے پانی بند کرنے کا مشورہ دیا اور امام حسینؑ اور ان کے اہل بیتؑ پر ظلم و ستم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ایک روایت کے مطابق، جب امام حسینؑ نے اپنے وفادار اصحاب کے ساتھ پانی طلب کیا، تو حصین بن نمیر نے سختی سے انکار کیا اور اپنے سپاہیوں کو ہدایت دی کہ پانی کے راستے بند رکھے جائیں۔ یہ اقدام اس ظلم کی ایک بھیانک مثال ہے جو کربلا کے میدان میں ہوا۔

حملے کے دوران حصین کا رویہ

10 محرم الحرام کو جب جنگ کا آغاز ہوا، تو حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک دستہ میدان میں اتارا گیا۔ اگرچہ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی، مگر یزیدی فوج اپنی تعداد، اسلحے، اور وسائل کی بنیاد پر خود کو غالب سمجھتی تھی۔ حصین بن نمیر نے کئی حملوں کی قیادت کی اور امامؑ کے ساتھیوں پر شدید وار کیے۔ کچھ روایات میں آتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اہل بیتؑ کے خیموں کو آگ لگائی۔

امام حسینؑ کی شہادت کے بعد

جب امام حسینؑ شہید ہو گئے اور ان کے اہل بیتؑ کو قید کر لیا گیا، تو یزیدی فوج نے لاشوں کی بے حرمتی کی۔ بعض روایات کے مطابق، حصین بن نمیر ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے امام حسینؑ کے سر مبارک کو نیزے پر بلند کیا اور اسے عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا۔ اس بے حرمتی اور ظلم میں اس کا کردار تاریخ میں سیاہ الفاظ سے لکھا گیا ہے۔

کوفہ سے شام تک کا سفر

امام حسینؑ کے اہل حرم کو قید کر کے کوفہ لے جایا گیا۔ وہاں سے انہیں شام یزید کے دربار میں روانہ کیا گیا۔ اس قافلے کے ساتھ بھی حصین بن نمیر کا نام آتا ہے۔ وہ ان اہل بیتؑ کی حفاظت کے نام پر ان پر نگرانی کرتا رہا، مگر درحقیقت یہ نگرانی ظلم کی ایک صورت تھی۔ قیدیوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا، اس کی تفصیلات آج بھی دل کو دہلا دیتی ہیں۔

شام میں یزید کا دربار

شام پہنچ کر جب اہل بیتؑ یزید کے دربار میں پیش کیے گئے، تو حصین بن نمیر ان کمانڈروں میں شامل تھا جنہوں نے یزید کو مشورے دیے کہ اہل بیتؑ کے ساتھ سختی برتی جائے تاکہ کوئی بغاوت نہ اُٹھ سکے۔ تاہم حضرت زینبؑ اور امام زین العابدینؑ کی خطابت نے دربار میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ یزید کو مجبوری میں قیدیوں کو رہا کرنا پڑا۔

حصین بن نمیر کا انجام

اگرچہ کربلا کے بعد یزید کی حکومت کچھ عرصہ اور قائم رہی، مگر امام حسینؑ کی شہادت نے بنو امیہ کے اقتدار کی بنیادیں ہلا دیں۔ حصین بن نمیر کی زندگی کے بعد کے حالات تاریخ میں زیادہ تفصیل سے محفوظ نہیں، مگر یہ طے ہے کہ وہ ظالموں کی صف میں شامل رہا اور تاریخ نے اس کے نام کو نفرت اور سیاہی سے یاد رکھا۔

عبرت کا مقام

حصین بن نمیر کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ظاہری طاقت، حکومت کی وفاداری، اور وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے اگر کوئی حق کے خلاف کھڑا ہو جائے تو وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رسوائی کا نشان بن جاتا ہے۔ اس کا کردار آج بھی مجلسوں، کتب، اور مقالات میں ایک عبرت ناک مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔


اختتامیہ

کربلا ایک معرکہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے — سچ اور جھوٹ کے درمیان۔ امام حسینؑ اور ان کے جانثاروں نے حق کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں جبکہ حصین بن نمیر جیسے کرداروں نے ظلم، جبر، اور باطل کا ساتھ دے کر اپنی آخرت تباہ کر لی۔ کربلا کے ہر کردار کی داستان میں سبق ہے۔ حصین بن نمیر کی سیاہ زندگی ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اقتدار اور طاقت کا غلط استعمال انسان کو ذلت کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas