امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد

 


مفتی عثمان صدیقی


امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد۔اگر آپ "Mufti Usman Siddiqui in Urdu" سے مراد یہ لے رہے ہیں کہ آپ مضمون کو "Mufti Usman Siddiqui" کے طرزِ تحریر یا اندازِ بیان میں چاہتے ہیں، تو میں وہی مضمون بیانیہ، روایتی دینی انداز میں دوبارہ پیش کر سکتا ہوں، جیسا کہ علماءِ کرام یا خطباء اپنے بیانات یا دروس میں پیش کرتے ہیں۔

ذیل میں وہی مضمون "امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد" کو مفتی عثمان صدیقی کے اندازِ تحریر میں پیش کیا گیا ہے، جس میں روایتی اسلوب، دل نشین بیانیہ اور دینی حوالہ جات شامل ہیں:


امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد — ایک روحانی سفر

تحریر: مفتی عثمان صدیقی (انداز)

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، وآلہ و اصحابہ أجمعین۔

قارئین کرام!
آج ہم اس عظیم ہستی کے سفر کا تذکرہ کریں گے، جن کی قربانی نے اسلام کے درخت کو اپنے خون سے سیراب کیا، جنہوں نے
ظلم کے اندھیرے میں حق کا چراغ روشن کیا، جنہوں نے یزید جیسے فاسق و فاجر کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا۔ وہ شخصیت، نواسۂ رسول ﷺ، جگرگوشۂ بتولؑ، لختِ جگرِ علیؑ، سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے۔


یزید کا اقتدار اور بیعت کا مطالبہ

حضرات!
جب حضرت معاویہؓ کا انتقال ہوا تو ان کے بعد ان کے بیٹے یزید نے حکومت سنبھالی۔ یزید وہ شخص تھا جو فسق و فجور، شراب و موسیقی اور بدکرداری میں مشہور تھا۔ ایسا شخص اگر خلافت کے منصب پر بیٹھے، تو کیا امام حسینؑ جیسے پاکباز، نبی زادے، اور تقویٰ کے پیکر اس کی بیعت کر سکتے تھے؟ ہرگز نہیں!

مدینہ کے گورنر ولید نے امام حسینؑ کو رات کی تاریکی میں بلایا تاکہ یزید کے لیے بیعت لی جا سکے۔ امامؑ نے صاف اور واضح انداز میں فرمایا:

"ہم اہل بیت نبوت ہیں، یزید ہم سے نہیں۔"


مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے روانگی

امام حسینؑ نے مدینہ کو خیرباد کہا۔ وہ مدینہ جس میں ان کی یادیں تھیں، نانا ﷺ کا روضہ تھا، ماں فاطمہؑ کی خوشبو تھی، مگر جب دین کا مسئلہ آیا تو انہوں نے اپنا وطن چھوڑ دیا۔ یہ ہجرت، محض نقل مکانی نہیں تھی، بلکہ ایک دینی سفر تھا۔

مکہ مکرمہ میں جب امامؑ کو علم ہوا کہ یزید کے کارندے انہیں حج کے دوران قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، تو آپؑ نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور اللہ کے گھر سے نکل گئے، تاکہ حرمت والا خون، حرمت والے مقام پر نہ گرے۔


کوفہ کی دعوت اور مسلم بن عقیل کی شہادت

کوفہ والوں نے امام حسینؑ کو سینکڑوں خطوط لکھے۔ سب نے کہا: "آئیے! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔" امام حسینؑ نے پہلے اپنے نمائندے مسلم بن عقیلؑ کو بھیجا۔ حضرت مسلمؑ کوفہ گئے، بیعتیں ہوئیں، لیکن جب ابن زیاد آیا، تو وہی لوگ جنہوں نے خط لکھے تھے، پیٹھ پھیر گئے۔ مسلمؑ کو شہید کر دیا گیا۔


امام حسینؑ کا سفرِ کربلا

امام حسینؑ نے پھر بھی اپنے سفر کو جاری رکھا، کیوں؟
کیونکہ وہ فقط اقتدار کے لیے نہیں نکلے تھے، وہ "اصلاحِ امت" کے لیے نکلے تھے۔ ان کا فرمان تھا:

"میں نے خروج اس لیے کیا ہے کہ امتِ رسول ﷺ میں اصلاح ہو، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔"

جب راستے میں فرزدق شاعر ملا تو امامؑ نے پوچھا: "کوفہ کے لوگ کیسے ہیں؟"
فرزدق نے جواب دیا: "ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں، مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔"


کربلا کی سرزمین پر قیام

2 محرم 61 ہجری کو امام حسینؑ کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں پہنچے۔ دشمن نے وہاں پہنچ کر پانی بند کر دیا۔ امامؑ کے خیمے دریائے فرات سے صرف چند گز کے فاصلے پر تھے، مگر ان کے اہل بیت پیاسے تھے۔

حر بن یزید ریاحی، جو پہلے یزیدی لشکر کا سالار تھا، امام حسینؑ کے کردار سے متاثر ہو کر حق کی طرف آ گیا۔ یہ حسینؑ کا کردار تھا، ان کا تقویٰ، ان کی صداقت، جو دشمن کو بھی شرمندہ کر دے۔


شہادت سے پہلے کی گفتگو

امام حسینؑ نے بارہا فرمایا:

"میں تم سے لڑنے نہیں آیا، میں فقط تمہیں حق کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تم بیعت نہیں کرتے تو مجھے جانے دو۔"

مگر دشمن کو صرف بیعت چاہیے تھی، وہ بھی ذلت والی۔


نتیجہ

میرے عزیزو!
کربلا کا سفر، امام حسینؑ کی آمد، ان کا پیغام، سب کچھ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دین پر سمجھوتہ نہیں ہوتا، حق کے لیے تنہا بھی کھڑا ہونا پڑے تو کھڑا ہو جانا چاہیے۔ آج اگر ہم واقعی حسینی ہیں تو ہمیں بھی ہر باطل نظام، ظلم، کرپشن، جھوٹ اور منافقت کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔

یاد رکھو!
یزید آج بھی زندہ ہے، کبھی کسی کرسی پر، کبھی کسی طاقت میں، اور حسینؑ بھی زندہ ہے، ہر مظلوم کی صورت میں، ہر سچے دل میں، ہر حق پرست کے لہجے میں۔


اللہم اجعلنا من انصار الحسینؑ، و احشرنا معہ یوم القیامۃ۔ آمین

Comments

Popular posts from this blog

نماز کی فضیلت

Namaz ki Fazilat Quran or Hadaith Ki Roshni Mn

Shan e Bait ul Maqdas